(البقرہ259:2)
ترجمہ: کیا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا : ''اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا : ''بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟'' وہ بولا کہ ''یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ''بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو،یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے،اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔'' جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفصیل ووضاحت: اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کر سکتا ہے؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کر لی۔
اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : '' بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟'' اب عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے : '' یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو''۔ کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خورد و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو گئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہو چکی تھی۔
تذکیر ی پہلو
١۔ حضرت عزیر خود بھی ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔
٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہو چکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔
٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔
٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
نوٹ: اس تحریر کی تفصیل و وضاحت اور ترجمہ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر تیسیرالقرآن سے کاپی کیے گئے ہیں۔
ترجمہ: کیا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا : ''اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا : ''بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟'' وہ بولا کہ ''یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ''بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو،یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے،اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔'' جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفصیل ووضاحت: اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کر سکتا ہے؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کر لی۔
اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : '' بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟'' اب عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے : '' یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو''۔ کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خورد و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو گئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہو چکی تھی۔
تذکیر ی پہلو
١۔ حضرت عزیر خود بھی ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔
٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہو چکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔
٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔
٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
نوٹ: اس تحریر کی تفصیل و وضاحت اور ترجمہ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر تیسیرالقرآن سے کاپی کیے گئے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔