پانچ ہجری میں آپ صلى الله عليه و سلم نے غنودگی کی حالت میں ایک منظرملاخطہ کیا کہ مسلمان سرمنڈائے بلا خوف وخطر مسجد الحرام میں داخل ہوگئے ۔(اس بات کی وضاحت بعد میں کی جائے گی )تاہم انھیں مکہ میں داخلے کی اجاز ت نہ دی گئی اورحدیبیہ کے مقام پ رقریش کے ساتھ ان کا ایک معا ہدہ طے پاگی، جس کی شرائط بہ ظاہر مسلمانوں کے خلاف جاتی تھیں،تاہم اس صلح کے بعد نازل ہونے والی آیات میں اس معاہدے کو'فتح مبین 'کانام دیاگیا۔
صلح حدیبیہ کے دوسال بعد ہی ثابت ہوگیا کہ یہ صلح حقیقی فتح تھی ۔قریش کے چند سرکردہ سرداروں مثلا خالد بن ولید، عمروبن العاص نے اسلام قبول کرلیا، جس سے اسلام کو اکناف عرب عبور کرجانے کا موقع ملا۔اہل یہود کی ریشہ دوانیوں کاخاتمہ ہوگیااورحکم رانوں کو لکھے گئے مراسلات کے نتیجے میں دین اسلام عرب کے چاروں اورپھیل گیا۔صلح حدیبیہ کے دوسال بعد قریش کے حلیف بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پرحملہ کرکے اس کے چند آدمیوں کو قتل کردیا ۔[تاریخ طبری کے مطابق رات کے وقت جب بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیاتوانھیں قریش کی آشیرباد حاصل تھی ۔انھوں نے بنو خزاعہ کے سوئے ہوئے لوگوں کو بے دریغ قتل کردیا۔ بچ نکلنے والوں نے حرم میں پناہ لے لی ، لیکن حرم کے تقدس کوپامال کرتے ہوئے انھیں بھی قتل کردیاگیا۔]اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کے مابین طے پانے والا معاہدہ بھی عملاختم ہوگیا۔چوں کہ اب قریش کا سردار ابوسفیان اس قبل نہ رہا تھاکہ مسلمانوں کے مقابلے میں آسکے ،لہذا وہ معاہدہ کی تجدید کے لیے مدینہ پہنچ گیا، لیکن رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے یہ تجویز مسترد کردی ۔ ۶
حضور صلى الله عليه و سلم نے فوری طورپر جنگ کی تیاری شروع کردی ۔جیساکہ آپ صلى الله عليه و سلم کامعمول تھا،آپ صلى الله عليه و سلم اس قسم کی سرگرمیوں کو بڑی رازداری میں رکھتے تھے ، اس موقع پر بھی کوئی نہ جانتا تھا کہ حضور صلى الله عليه و سلم کس طرف کوروانہ ہونے والے ہیں ،حتی کہ آپ صلى الله عليه و سلم کی ازواج مطہرا ت اور ابوبکر و عمر جیسے کبار صحابہ بھی بے خبرتھے ۔ جب ابوبکر نے ام المومنین عائشہ سے دریافت کیاکہ حضور صلى الله عليه و سلم کاارادہ کس طرف کا ہے؟تو انھوں نے جواب دیا۔ 'اباجان!مجھے کچھ معلوم نہیں ۔' ۷ تاہم مہاجرین میں سے حاطب بن بلتعہ نے اندازہ کرلیاکہ آپ صلى الله عليه و سلم مکہ کی طر ف پیش قدمی کاارادہ رکھتے ہیں ، لہذا انھوں نے قریش کو آگاہ کرنے کے لیے اطلاع بھیج دی ۔حضو ر صلى الله عليه و سلم کو بہ ذریعہ وحی مطلع کردیا گیا توآپ صلى الله عليه و سلم نے علی ،زبیرں [اورمقداد]کو حکم دیاکہ وہ حاطب کی پیغام برعورت سے وہ خط چھین لائیں ، چناں چہ صحابہ آپ صلى الله عليه و سلم کے حکم پراس سے خط چھین لائے۔۸
رسول اکرم صلى الله عليه و سلم دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے ۔دو سال قبل جب آپ صلى الله عليه و سلم عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تھے توایک ہزار چھ سو [اور بعض روایات کے مطابق چودہ سو، جب کہ بعض کے مطابق پندرہ سو]صحابہ کرام آپ صلى الله عليه و سلم کے ہم راہ تھے ۔اسی موقع پر حدیبیہ کامعاہدہ طے پایاتھا ۔اس کے بعد امن وامان قائم ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کواسلام کے بارے میں ازسرنوسوچنے سمجھنے کاموقع مل گیااور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
صحابہ کرا م اس وقت تک اپنی منزل سے بے خبر رہے ، جب تک کہ راستے میں انھیں مکہ کی جانب رخ کرنے کا حکم نہ دے دیاگیا۔ مکہ کے قریب پہنچ کرحضور صلى الله عليه و سلم نے ہر صحابی کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا۔عربوں میں رواج تھاکہ جب کبھی صحرا میں خیمہ زن ہوتے توہر خیمہ کے باہر آگ جلاتے ۔۹ یوں اہل مکہ نے سمجھاکہ یہ لشکر تیس ہزار پر مشتمل ہے ۔ہتھیارڈال دینے کے علاوہ اب ان کے پاس کوئی چارہ کارنہ تھا۔ابوسفیان نے بھی،جسے حضور صلى الله عليه و سلم نے لشکر کے ملاخطے کے لیے بلایاتھا، اہل مکہ کوسمجھایا کہ مزاحمت کے بجائے ہتھیار ڈال دینے میں ہی خیرہے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم کسی قسم کی خوں ریزی سے بچنا چاہتے تھے ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے لشکر کو چھ حصوں میں تقسیم کیا، جن میں سے ہرایک الگ الگ راستے سے مکہ میں داخل ہوا۔آپ صلى الله عليه و سلم نے سپہ سالاروں کوحکم دے رکھاتھا کہ وہ ا س وقت تک ہتھیار نہ اٹھائیں ۔تاوقتیکہ کوئی ان کے مقابلے میں آجائے ۔خوں ریزی سے بچنے اور پر امن فتح کے حصول کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے اعلان فرمادیاکہ جوکعبہ میں پناہ لیں گے ، انھیں امان ہے؛جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لیں گے ، انھیں امان ہے اور جواپنے گھرو ں میں رہیں گے ،ان کے لیے بھی امان ہے۔۱۰
حضور صلى الله عليه و سلم فلاح دارین کے لیے معبوث ہوئے تھے ، چناں چہ اپنی شان رحیمی کے سبب خچروانکساری سے جھکے ہوئے مکے میں فاتحانہ داخل ہوئے ۔ایسے میں آپ صلى الله عليه و سلم کے پیش نظر نہ تواحساس تفاخر تھااورنہ ہی جذبہ انتقام ۔آپ صلى الله عليه و سلم انتہائی عاجزی کے ساتھ کعبہ کی طرف بڑھتے ہوئے اللہ کا شکر اداکررہے تھے، جس نے آپ صلى الله عليه و سلم کو ناقابل برداشت دورابتلا کے بعد اس عظیم مشن میں کام یابی سے سرفراز کیا۔ آپ صلى الله عليه و سلمنے کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر قریش کو مخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا۔ 'تمھار اکیاخیال ہے کہ میں تمھارے ساتھ کیاسلوک کرنے والاہوں؟' انھوں نے عرض کیا۔ 'حضو ر!آپ( صلى الله عليه و سلم )کریم ہیں او رکریم باپ کے فرزند ہیں ۔' حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں ۔اللہ تمھاری مغفرت کرے ۔بے شک وہ بہت مہربان اوربڑا رحم کرنے والا ہے۔جاؤ ،تم سب آزاد ہو۔' ۱۱
یوں مکہ سے مشرکین کاخاتمہ ہوگیا۔آپ صلى الله عليه و سلم بیت اللہ میں رکھے ہوئے بتوں کوتوڑتے ہوئے فرمارہے تھے ۔ 'حق آگیا اورباطل مٹ گیا۔بلاشبہ باطل مٹنے ہی کے لائق تھا۔' ۱۲ اورتقریبا تمام اہل مکہ نے ، جوایک روز پہلے تک اسلام کے دشمن تھے، حضورصلى الله عليه و سلم کے صحابی ہونے کااعزاز حاصل کرلیا۔
صلح حدیبیہ کے دوسال بعد ہی ثابت ہوگیا کہ یہ صلح حقیقی فتح تھی ۔قریش کے چند سرکردہ سرداروں مثلا خالد بن ولید، عمروبن العاص نے اسلام قبول کرلیا، جس سے اسلام کو اکناف عرب عبور کرجانے کا موقع ملا۔اہل یہود کی ریشہ دوانیوں کاخاتمہ ہوگیااورحکم رانوں کو لکھے گئے مراسلات کے نتیجے میں دین اسلام عرب کے چاروں اورپھیل گیا۔صلح حدیبیہ کے دوسال بعد قریش کے حلیف بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پرحملہ کرکے اس کے چند آدمیوں کو قتل کردیا ۔[تاریخ طبری کے مطابق رات کے وقت جب بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیاتوانھیں قریش کی آشیرباد حاصل تھی ۔انھوں نے بنو خزاعہ کے سوئے ہوئے لوگوں کو بے دریغ قتل کردیا۔ بچ نکلنے والوں نے حرم میں پناہ لے لی ، لیکن حرم کے تقدس کوپامال کرتے ہوئے انھیں بھی قتل کردیاگیا۔]اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کے مابین طے پانے والا معاہدہ بھی عملاختم ہوگیا۔چوں کہ اب قریش کا سردار ابوسفیان اس قبل نہ رہا تھاکہ مسلمانوں کے مقابلے میں آسکے ،لہذا وہ معاہدہ کی تجدید کے لیے مدینہ پہنچ گیا، لیکن رسول اکرم صلى الله عليه و سلم نے یہ تجویز مسترد کردی ۔ ۶
حضور صلى الله عليه و سلم نے فوری طورپر جنگ کی تیاری شروع کردی ۔جیساکہ آپ صلى الله عليه و سلم کامعمول تھا،آپ صلى الله عليه و سلم اس قسم کی سرگرمیوں کو بڑی رازداری میں رکھتے تھے ، اس موقع پر بھی کوئی نہ جانتا تھا کہ حضور صلى الله عليه و سلم کس طرف کوروانہ ہونے والے ہیں ،حتی کہ آپ صلى الله عليه و سلم کی ازواج مطہرا ت اور ابوبکر و عمر جیسے کبار صحابہ بھی بے خبرتھے ۔ جب ابوبکر نے ام المومنین عائشہ سے دریافت کیاکہ حضور صلى الله عليه و سلم کاارادہ کس طرف کا ہے؟تو انھوں نے جواب دیا۔ 'اباجان!مجھے کچھ معلوم نہیں ۔' ۷ تاہم مہاجرین میں سے حاطب بن بلتعہ نے اندازہ کرلیاکہ آپ صلى الله عليه و سلم مکہ کی طر ف پیش قدمی کاارادہ رکھتے ہیں ، لہذا انھوں نے قریش کو آگاہ کرنے کے لیے اطلاع بھیج دی ۔حضو ر صلى الله عليه و سلم کو بہ ذریعہ وحی مطلع کردیا گیا توآپ صلى الله عليه و سلم نے علی ،زبیرں [اورمقداد]کو حکم دیاکہ وہ حاطب کی پیغام برعورت سے وہ خط چھین لائیں ، چناں چہ صحابہ آپ صلى الله عليه و سلم کے حکم پراس سے خط چھین لائے۔۸
رسول اکرم صلى الله عليه و سلم دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے ۔دو سال قبل جب آپ صلى الله عليه و سلم عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تھے توایک ہزار چھ سو [اور بعض روایات کے مطابق چودہ سو، جب کہ بعض کے مطابق پندرہ سو]صحابہ کرام آپ صلى الله عليه و سلم کے ہم راہ تھے ۔اسی موقع پر حدیبیہ کامعاہدہ طے پایاتھا ۔اس کے بعد امن وامان قائم ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کواسلام کے بارے میں ازسرنوسوچنے سمجھنے کاموقع مل گیااور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
صحابہ کرا م اس وقت تک اپنی منزل سے بے خبر رہے ، جب تک کہ راستے میں انھیں مکہ کی جانب رخ کرنے کا حکم نہ دے دیاگیا۔ مکہ کے قریب پہنچ کرحضور صلى الله عليه و سلم نے ہر صحابی کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا۔عربوں میں رواج تھاکہ جب کبھی صحرا میں خیمہ زن ہوتے توہر خیمہ کے باہر آگ جلاتے ۔۹ یوں اہل مکہ نے سمجھاکہ یہ لشکر تیس ہزار پر مشتمل ہے ۔ہتھیارڈال دینے کے علاوہ اب ان کے پاس کوئی چارہ کارنہ تھا۔ابوسفیان نے بھی،جسے حضور صلى الله عليه و سلم نے لشکر کے ملاخطے کے لیے بلایاتھا، اہل مکہ کوسمجھایا کہ مزاحمت کے بجائے ہتھیار ڈال دینے میں ہی خیرہے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم کسی قسم کی خوں ریزی سے بچنا چاہتے تھے ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے لشکر کو چھ حصوں میں تقسیم کیا، جن میں سے ہرایک الگ الگ راستے سے مکہ میں داخل ہوا۔آپ صلى الله عليه و سلم نے سپہ سالاروں کوحکم دے رکھاتھا کہ وہ ا س وقت تک ہتھیار نہ اٹھائیں ۔تاوقتیکہ کوئی ان کے مقابلے میں آجائے ۔خوں ریزی سے بچنے اور پر امن فتح کے حصول کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے اعلان فرمادیاکہ جوکعبہ میں پناہ لیں گے ، انھیں امان ہے؛جوابوسفیان کے گھر میں پناہ لیں گے ، انھیں امان ہے اور جواپنے گھرو ں میں رہیں گے ،ان کے لیے بھی امان ہے۔۱۰
حضور صلى الله عليه و سلم فلاح دارین کے لیے معبوث ہوئے تھے ، چناں چہ اپنی شان رحیمی کے سبب خچروانکساری سے جھکے ہوئے مکے میں فاتحانہ داخل ہوئے ۔ایسے میں آپ صلى الله عليه و سلم کے پیش نظر نہ تواحساس تفاخر تھااورنہ ہی جذبہ انتقام ۔آپ صلى الله عليه و سلم انتہائی عاجزی کے ساتھ کعبہ کی طرف بڑھتے ہوئے اللہ کا شکر اداکررہے تھے، جس نے آپ صلى الله عليه و سلم کو ناقابل برداشت دورابتلا کے بعد اس عظیم مشن میں کام یابی سے سرفراز کیا۔ آپ صلى الله عليه و سلمنے کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر قریش کو مخاطب کرتے ہوئے استفسارکیا۔ 'تمھار اکیاخیال ہے کہ میں تمھارے ساتھ کیاسلوک کرنے والاہوں؟' انھوں نے عرض کیا۔ 'حضو ر!آپ( صلى الله عليه و سلم )کریم ہیں او رکریم باپ کے فرزند ہیں ۔' حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'آج کے دن تم پر کوئی سرزنش نہیں ۔اللہ تمھاری مغفرت کرے ۔بے شک وہ بہت مہربان اوربڑا رحم کرنے والا ہے۔جاؤ ،تم سب آزاد ہو۔' ۱۱
یوں مکہ سے مشرکین کاخاتمہ ہوگیا۔آپ صلى الله عليه و سلم بیت اللہ میں رکھے ہوئے بتوں کوتوڑتے ہوئے فرمارہے تھے ۔ 'حق آگیا اورباطل مٹ گیا۔بلاشبہ باطل مٹنے ہی کے لائق تھا۔' ۱۲ اورتقریبا تمام اہل مکہ نے ، جوایک روز پہلے تک اسلام کے دشمن تھے، حضورصلى الله عليه و سلم کے صحابی ہونے کااعزاز حاصل کرلیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔