برادرانِ اسلام! آج میں آپ کے سامنے مسلمان کی صفات بیان کروں گا۔ یعنی یہ بتاؤں گا کہ مسلمان ہونے کے لیے کم سے کم شرطیں کیا ہیں، آدمی کو کم از کم کیا ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان کہلائے جانے کے قابل ہو۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ کفر کیا ہے اور اسلام کیا ہے۔ کفر یہ ہے کہ آدمی خدا کی فرمانبرداری سے انکار کر دے، اور اسلام یہ ہے کہ آدمی صرف خدا کا فرمانبردار ہو اور ہر ایسے طریقے، یا قانون، یا حکم کو ماننے سے انکار کر دے جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کے خلاف ہو۔ اسلام اور کفر کا یہ فرق قرآن مجید میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم اللکفرون۔ (المائدہ: آیت 45)۔
یعنی جو شخص خدا کی اتاری ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کرے، ایسے ہی لوگ دراصل کافر ہیں۔ فیصلہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ عدالت میں جو مقدمہ جائے بس اسی کا فیصلہ خدا کی کتاب کے مطابق ہو۔ بلکہ دراصل اس سے مراد وہ فیصلہ ہے جو ہر شخص اپنی زندگی میں ہر وقت کیا کرتا ہے۔ ہر موقع پر تمہارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ فلاں کام کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ فلاں بات اس طرح کی جائے یا اس طرح کی جائے؟ فلاں معاملہ میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے یا وہ طریقہ اختیار کیا جائے؟ تمام ایسے موقعوں پر ایک طریقہ خدا کی کتاب اور اسکے رسول کی سنت بتاتی ہے۔ اور دوسرا طریقہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات، یا باپ دادا کی رسمیں، یا انسانوں کے بنائے ہوئے قانون بتاتے ہیں۔ اب جو شخص خدا کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقے کے مطابق کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل کفر کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اگر اس نے اپنی ساری زندگی ہی کے لیے یہی ڈھنگ اختیار کیا ہے تو وہ پورا کافر ہے۔ اور اگر وہ بعض معاملات میں خدا کی ہدایت کو مانتا ہو اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو یا رسم و رواج کو یا انسانوں کے قانون کو خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جسقدر بھی وہ خدا کے قانون سے بغاوت کرتا ہے اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے۔ کوئی چھوتھائی کافر ہے۔ کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ، غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے اتنا ہی کفر بھی ہے۔
اسلام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آدمی صرف خدا کا بندہ ہو۔ نفس کا بندہ نہ باپ دادا کا بندہ، نہ خاندان اور قبیلہ کا بندہ، نہ مولوی صاحب اور پیر صاحب کا بندہ، نہ زمین دار صاحب اور تحصیل دار صاحب اور مجسٹریٹ کا بندہ نہ خدا کے سوا کسی اور صاحب بندہ۔
ترجمہ: یعنی اے نبی! اہل کتاب سے کہو کہ آؤ ہم تم ایک ایسی بات پر اتفاق کر لیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے ۔(یعنی جو تمھارے نبی بھی بتا گئے ہیں، اور خدا کا نبی ہونے کی حیثیت سے میں بھی وہی بات کہتا ہوں) وہ بات یہ ہے کہ ایک تو ہم اللہ کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہیں۔ دوسرے یہ کہ خدائی میں کسی کو شریک نہ کریں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم میں کوئی انسان کسی انسان کو اللہ کے بجائے اپنا مالک اور اپنا آقا نہ بنائے۔ یہ تین باتیں کہ ہم میں کوئی انسان کسی انسان کو اللہ کے بجائے اپنا مالک اور اپنا آقا نہ بنائے۔ یہ تین باتیں اگر وہ نہیں مانتے تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ یعنی ہم ان تینوں باتوں کو مانتے ہیں۔ (آل عمران، آیت 64)۔
ترجمہ: یعنی کیا وہ خدا کی اطاعت کے سوا کسی اور کی اطاعت چاہتے ہیں؟ حالانکہ خدا وہ ہے کہ زمین اور آسمان کی ہر چیز چارو ناچار اس کی اطاعت کر رہی ہے اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ (آل عمران 83)۔
ان دونوں آیتوں میں ایک ہی بات بیان کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ اصلی دین خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ خدا کی عبادت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس پانچ وقت اس کے آگے سجدہ کر لو۔ بلکہ اس کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ رات دن میں ہر وقت اس کے احکام کی اطاعت کرو۔ جس چیز سے اس نے منع کیا ہے۔ اس سے رک جاؤ جس چیز کا اس نے حکم کیا ہے اس پر عمل کرو۔ ہر معاملہ میں یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ تمھارا اپنا دل کیا کہتا ہے، تمھاری عقل کیا کہتی ہے، باپ دادا کیا کر گئے ہیں، خاندان اور برادری کی مرضی کیا ہے، جناب مولوی صاحب قبلہ اور جناب پیر صاحب قبلہ کیا فرماتے ہیں، اور فلاں صاحب کا کیا حکم ہے اور فلاں صاحب کی کیا مرضی ہے۔ اگر تم نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر کسی کی بات مانی تو خدائی میں اس کو شریک کیا۔ اسکو وہ درجہ دیا جو صرف خدا کا درجہ ہے۔ حکم دینے والا تو صرف خدا ہے۔ ان الحکم الاللہ۔ بندگی کے لائق تو صرف وہ ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور جس کے بل بوتے پر تم زندہ ہو۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز اسی کی اطاعت کر رہی ہے۔ کوئی پتھر کسی پتھر کی اطاعت نہیں کرتا۔ پھر کیا تم جانوروں، درختوں اور پتھروں سے بھی گئے گزرے ہو گئے کہ وہ صرف خدا کی اطاعت کریں، اور تم خدا کو چھوڑ کر انسانوں کی اطاعت کرو؟ یہ ہے وہ بات جو قرآن کی ان دونوں آیتوں میں بیان فرمائی گئی ہے۔ اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کفر اور گمراہی دراصل نکلتی کہاں سے ہے۔ قرآن مجید ہم کو بتاتا ہت کہ اس کمبخت بلا کے آنے کے تین رستے ہیں۔ پہلا راستہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں:-
ترجمہ:- یعنی اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جس نے خدا کی ہدایات کے بجائے اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے ظالم لوگوں کو خدا ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص۔ آیت 50)۔
مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کو گمراہ کرنے والی چیز انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں۔ جو شخص خواہشات کا بندہ بن گیا۔ اس کے لیے خدا کا بندہ ممکن ہی نہیں۔ وہ تو ہر وقت یہ دیکھے گا کہ مجھے روپیہ کس کام میں ملتا ہے۔ میری عزت اور شہرت کس کام میں ہوتی ہے، مجھے لذت اور لطف کس کام میں حاصل ہوتا ہے، مجھے آرام اور آسائش کس کام میں ملتی ہے۔ بس یہ چیزیں جس کام میں ہوں گی اسی کو اکٹیار کرے گا۔ چاہے خدا اس سے منع کرے۔ اور یہ چیزیں جس کام میں نہ ہوں اس کو وہ ہر گز نہ کرے گا۔ چاہے خدا اس کو حکم دے۔ تو ایسے شخص کا خدا اللہ تبارک و تعالٰی نہ ہوا۔ اس کا اپنا نفس ہی اس کا خدا ہو گیا۔ اس کو ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟ اسی بات کو دوسری جگہ قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے
ترجمہ:- یعنی اے نبی تم نے اس شخص کے حال پر غور بھی کیا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا تم نے ایسے شخص کی نگرانی کر سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ ہر گز نہیں، یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔“ (الفرقان۔ آیت 43۔44)۔
نفس کے بندے کا جانوروں سے بدتر ہونا ایسی بات ہے جس میں کسی شکی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کوئی جانور آپ کو ایسا نہ ملے گا جو خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتا ہو۔ ہر جانور وہی چیز کھاتا ہے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اسی قدر کھاتا ہے جس قدر اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اور جتنے کام جس جانور کے لیے مقرر ہیں بس اتنے ہی کرتا ہے۔ مگر یہ انسان ایسا جانور ہے کہ جب یہ اپنی خواہش کا بندہ بنتا ہے تو وہ وہ حرکتیں کر گزرتا ہے جن سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ یہ تو گمراہی کے آنے کا پہلا راستہ ہے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو رسم و رواج، جو عقیدے اور خیالات، جو رنگ ڈھنگ چلے آ رہے ہوں، آدمی ان کا غلام بن جائے اور خدا کے حکم سے بڑھ کر ان کو سمجھے، اور اگر انکے خلاف خدا کا حکم اس کے سامنے پیش کیا جائے تو کہے کہ میں تو وہی کروں گا جو میری باپ دادا کرتے تھے اور جو میرے خاندان اور قبیلے کا رواج ہے۔ جو شخص اس مرض میں مبتلا ہے وہ خدا کا بندہ کب ہوا۔ اس کے خدا تو اس کے باپ دادا اور اس کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہیں۔ اس کو یہ جھوٹا دعویٰ کرنے کا کیا حق ہے کہ میں مسلمان ہوں؟ قرآن کریم میں اس پر بھی بڑی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے۔:- اور جب کبھی ان سے کہا گیا کہ جو حکم خدا نے بھیجا ہے اس کی پیروی کرو، تو انہوں نے نے یہی کہا کہ ہم تو اس بات کی پیروی کریں گے جو ہمیں باپ دادا سے ملی ہے۔ اگر ام کے باپ دادا کسی بات کو نہ سمجھتے ہوں اور راہِ راست پر نہ ہوں تو کیا یہ پھر بھی انہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟ (البقرہ۔ آیت 170)۔
دوسری جگہ فرمایا:-
اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اس کا فرمان کی طرف جو خدا نے بھیجا ہے اور آؤ رسول کے طریقے کی طرف، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے چاہے ان کو کسی بات کا علم نہ ہو اور وہ سیدھے راستے پر ن ہوں؟ اے ایمان لانے والو! تم کو اپنی فکر ہونی چاہیے۔ اگر تم سیدھے راستے پر لگ جاؤ تو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھیں ہوئی نقصان نہ ہو گا، پھر آخڑ کار سب کو خدا کی طرف واپس جانا ہے۔ اس وقت خدا تم کو تمھارے اعمال کا نیک و بد سب کچھ بتا دے گا۔“ ( المائدہ۔ آیت 104۔105) یہ ایسی گمراہی ہے جس میں تقریباً ہر زمانے کے جاہل لوگ مبتلا رہتے ہیں اور ہمیشہ خدا کے رسولوں کی ہدایت کو ماننے سے یہی چیز انسان کو روکتی ہے۔ حضرت موسیٰ ع نے جب لوگوں کو خدا کی شریعت کی طرف بلایا تھا، اس وقت بھی لوگوں نے یہی کہا تھا
ترجمہ:- کیا تو ہمیں اس راستے سے ہٹانا چاہتا ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔( یونس۔78 ) حضرت ابراہیم نے جب اپنے قبیلے والوں کو شرک سے روکا تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا:-
ترجمہ:- ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی خداؤں کی بندگی کرتے ہوئے پایا ہے۔ (الانبیاء ۔ آیت 53)۔
غرض اسی طرح ہر نبی کے مقابلے میں لوگوں نے یہی حجت پیش کی ہے۔ کہ تم جو کہتے ہو یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے اس لیے ہم اسے نہیں مانتے۔
چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:-
ترجمہ:- “ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کبھی ہم نے کسی بستی میں کسی ڈرانے والے یعنی پیغمبر کو بھیجا تو اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ پیغمبر نے ان سے کہا اگر میں اس سے بہتر بات بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے تو کیا پھر بھی تم باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جاؤ گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے بھی ان کو خوب سزا دی اور اب دیکھ لو کہ ہمارے احکام کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔“( الزخرف۔ آیت:- 23۔25)۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یا تو باپ دادا ہی کی پیروی کر لو یا پھر ہمارے ہی حکم کی پیروی کرو۔ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان ہونا چاہتے ہو تو سب چھوڑ کر صرف اس بات کو مانو جو ہم نے بتائی ہے۔
ترجمہ:- جب ان سے کہا گیا کہ اس حکم کی پیروی کرو جو خدا نے بھیجا ہے تو انہوں نے کہا کہ “نہیں ہم تو اس بات کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔“ چاہے شیطان ان کو عذاب جہنم ہی کی طرف کیوں نہ بلا رہا ہو۔ جو کوئی اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کر دے اور نیکو کار ہو اس نے تو مضبوط رسی تھام لی اور آخر کار تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہیں، اور جس نے اس سے انکار کیا تو اے نبی تم کو اس کے انکار سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ سب ہماری طرف واپس آنے والے ہیں پھر ہم انھیں ان کے اعمال کا نتیجہ دکھا دیں گے۔ (لقمان۔ آیت 21۔ 23)۔
یہ گمراہی کے آنے کا دوسرا راستہ تھا۔ تیسرا راستہ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انسان جب خدا کے حکم کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے حکم ماننے لگتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں شخص بڑا آدمی ہے، اس کی بات پکی ہو گی، یا فلاں شخص کے ہاتھ میں میری روٹی ہے اس لیے اس کی بات ماننی چاہیے، فلاں شخص بڑا صاحبِ اقتدار ہے اس لیے اس کی فرمانبرداری کرنی چاہیے، یا فلاں صاحب اپنی بددعا سے مجھے تباہ کر دینگے یا اپنے ساتھ جنت میں کے جائیں گےاس لیے جو وہ کہیں وہی صحیح ہے، یا فلاں قوم بڑی ترقی کر رہی ہے، اس کے طریقے اختیار کرنے چاہیں، تو ایسے شخص پر خدا کی ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔
ترجمہ:- اگر تو نے ان بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تجھ کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ (الانعام ۔ 116)۔
یعنی آدمی سیدھے راستہ پر اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کا ایک خدا ہو۔سینکڑوں ہزاروں خدا جس نے بنا لیے ہوں، اور جو کبھی اس خدا کے کہے پر اور کبھی اس خدا کے کہے پر چلتا ہو، وہ راستہ کہاں پا سکتا ہے۔
اب آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ گمراہی کے تین بڑے بڑے سبب ہیں۔ ایک، نفس کی بندگی۔ دوسرے، ماں دادا اور خاندان اور قبیلے کے رواجوں کی بندگی۔ تیسرے، عام طور پر دنیا کے لوگوں کی بندگی جس میں دولت مند لوگ اور حکامِ وقت اور بناوٹی پیشوا، اور گمراہ قومیں سب ہی شامل ہیں۔ یہ تین بڑے بڑے بت ہیں جو خدائی کے دعوایدار بنے ہوئے ہیں۔ جو شخص مسلمان بننا چاہتا ہو اس کو سب سے پہلے ان تینوں بتوں کو توڑنا چاہیے۔ پھر وہ حقیقت میں مسلمان ہو جائے گا۔ ورنہ جس نے تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں۔ اس کا بندہ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پچاس وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کر اور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
بھائیو! آج میں نے آپ کے سامنے جن تینوں بتوں کا ذکر کیا ہے ان کی بندگی اصلی شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دئیے۔ اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دئیے۔ مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اولین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے۔ اگرچہ میرا خطاب تمام مسلمانوں ہے۔، اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا اور تمان ہندوستان میں مسلمان جس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں وہ انہی تین بتوں کی پوجا کا نتیجہ ہے۔
مگر چونکہ اس وقت میرے سامنے پنجابی بھائی ہیں اس لیے خاص طور پر ان سے کہتا ہوں کہ آپ کی تباہی اور آپ کی ذلت اور مصیبت اور کی جڑ یہ تین چیزیں ہیں جو آپ نے ابھی مجھ سے سنی ہیں۔ آپ اس پنجاب کی سر زمین میں ڈیڑھ کروڑ سے زیاد ہیں۔ اس صوبہ کی آبادی میں آدھے سے زیادہ آپ ہیں۔ اور آدھے کم میں دوسری قومیں ہیں۔ مگر اتنی بڑی قوم ہونے کے باوجود یہاں آپ کا کوئی وزن نہیں۔(1) بعض نہایت قلیل التعداد قوموں کا وزن آپ سے بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ پر بھی آپ نے کبھی غور کیا؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نفس کی بندگی، خاندانی رواجوں کی بندگی اور خدا کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی نے آپ کی طاقت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آپ میں راجپوت ہیں، گکھڑ ہیں، مغل ہیں، جاٹ ہیں اور بہت سی قومیں ہیں۔ اسلام نے ان سب قوموں کو ایک قوم، ایک دوسرے کا بھائی، ایک پختہ دیوار بننے کے لیے کہا تھا جس کی اینٹ سے اینٹ جڑی ہوئی ہو، مگر آپ اب بھی وہی پرانے ہندوانہ خیالات لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جس طرح ہندوؤں میں الگ الگ گوتریں ہیں، اسی طرح آپ میں بھی اب تک قبیلے قبیلے الگ ہیں۔ آپس میں مسلمانوں کی طرح شادی بیاہ نہیں۔ ایک دوسرے سے برادری اور بھائی چارہ نہیں۔ زبان سے آپ ایک دوسرے کو مسلمان بھائی کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں آپ کے درمیان وہی سب امتیازات ہیں جو اسلام سے پہلے تھے۔ ان امتیازات نے آپ کو ایک مضبوط دیوار نہیں بننے دیا۔ آپ کی ایک ایک اینٹ الگ ہے۔ آپ نہ مل کر اٹھ سکتے ہیں اور نہ مل کر کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق آپ سے کہا جائے کہ توڑو ان امتیازات کو، اور آپس میں پھر ایک ہو جاؤ، تو آپ کیا کہیں گے؟ بس وہی ایک بات، یعنی ہمارے باپ دادا سے جو رواج چلے آ رہے ہیں ان کو ہم نہیں توڑ سکتے۔ اس کا جواب خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے۔ بس یہی کہ تم نہ توڑو ان رواجوں کو، نہ چھوڑو ہندوانہ رسموں کی تقلید کو ہم بھی تم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ اور تمھاری کثرت تعداد کے باوجود تم کو ذلیل و خوار کر کے دکھائیں گے۔
اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ تمھاری وراثت میں لڑکے اور لڑکیاں سب شریک ہیں۔ آپ اس کا جواب کیا دیتے ہیں؟ یہ کہ ہمارے باپ دادا کے قانون میں لڑکے لڑکیاں شریک نہیں ہیں اور یہ کہ ہم خدا کے قانون کے بجائے باپ دادا کا قانون مانتے ہیں۔ خدارا مجھے بتائیے کیا اسلام اسی کا نام ہے؟ آپ سے کہا جاتا ہے کہ اس خاندانی قانون کو توڑئیے۔ آپ میں سے ہر شخص کہتا ہے کہ جب سب توڑیں گے میں بھی توڑ دوں گا۔ ورنہ اگر دوسروں نے لڑکی کو حصہ نہ دیا، اور میں نے دے دیا تو میرے گھر کی دولت تو دوسروں کے پاس چلی جائے گی، مگر دوسرے کے گھر کی دولت میرے گھر میں نہ آئے گی۔ غور کیجئے کہ اس جواب کے کیا معنی ہیں؟ کیا خدا کے قانون کی اطاعت اسی شرط سے کی جائے گی کہ دوسرے اطاعت کریں تو آپ بھی کریں گے؟ کل آپ کہیں گے کہ دوسرے زنا کریں گے تو میں بھی کروں گا۔ دوسرے چوری کریں تو میں بھی کروں گا۔ غرض دوسرے جب تک سب گناہ نہ چھوڑیں گے، میں بھی اس وقت تک سب گناہ کرتا رہوں گا۔ بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں تینوں بتوں کی پرستش ہو رہی ہے۔ نفس کی بندگی بھی ہے باپ دادا کی بندگی بھی۔ اور مشرک قوموں کی بندگی بھی۔ اور تینوں کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہے۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ ورنہ آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو بے شمار اسی قسم کے امراض آپ کے اندر پھیلے ہوئے نظر آئیں گے، اور ان سب میں آپ یہی دیکھیں گے کہ کہیں ایک بت کی پرستش ہے اور کہیں دو بتوں کی۔ اور کہیں تینوں بتوں کی۔ جب یہ بت پوجے جا رہے ہوں، اور ان کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہو تو آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ آپ پر ان رحمتوں کی بارش ہو گی جن کا وعدہ سچے مسلمانوں سے کیا گیا ہے؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ کفر کیا ہے اور اسلام کیا ہے۔ کفر یہ ہے کہ آدمی خدا کی فرمانبرداری سے انکار کر دے، اور اسلام یہ ہے کہ آدمی صرف خدا کا فرمانبردار ہو اور ہر ایسے طریقے، یا قانون، یا حکم کو ماننے سے انکار کر دے جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کے خلاف ہو۔ اسلام اور کفر کا یہ فرق قرآن مجید میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم اللکفرون۔ (المائدہ: آیت 45)۔
یعنی جو شخص خدا کی اتاری ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کرے، ایسے ہی لوگ دراصل کافر ہیں۔ فیصلہ کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ عدالت میں جو مقدمہ جائے بس اسی کا فیصلہ خدا کی کتاب کے مطابق ہو۔ بلکہ دراصل اس سے مراد وہ فیصلہ ہے جو ہر شخص اپنی زندگی میں ہر وقت کیا کرتا ہے۔ ہر موقع پر تمہارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ فلاں کام کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ فلاں بات اس طرح کی جائے یا اس طرح کی جائے؟ فلاں معاملہ میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے یا وہ طریقہ اختیار کیا جائے؟ تمام ایسے موقعوں پر ایک طریقہ خدا کی کتاب اور اسکے رسول کی سنت بتاتی ہے۔ اور دوسرا طریقہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات، یا باپ دادا کی رسمیں، یا انسانوں کے بنائے ہوئے قانون بتاتے ہیں۔ اب جو شخص خدا کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقے کے مطابق کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل کفر کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اگر اس نے اپنی ساری زندگی ہی کے لیے یہی ڈھنگ اختیار کیا ہے تو وہ پورا کافر ہے۔ اور اگر وہ بعض معاملات میں خدا کی ہدایت کو مانتا ہو اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو یا رسم و رواج کو یا انسانوں کے قانون کو خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جسقدر بھی وہ خدا کے قانون سے بغاوت کرتا ہے اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے۔ کوئی چھوتھائی کافر ہے۔ کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ، غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے اتنا ہی کفر بھی ہے۔
اسلام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آدمی صرف خدا کا بندہ ہو۔ نفس کا بندہ نہ باپ دادا کا بندہ، نہ خاندان اور قبیلہ کا بندہ، نہ مولوی صاحب اور پیر صاحب کا بندہ، نہ زمین دار صاحب اور تحصیل دار صاحب اور مجسٹریٹ کا بندہ نہ خدا کے سوا کسی اور صاحب بندہ۔
ترجمہ: یعنی اے نبی! اہل کتاب سے کہو کہ آؤ ہم تم ایک ایسی بات پر اتفاق کر لیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے ۔(یعنی جو تمھارے نبی بھی بتا گئے ہیں، اور خدا کا نبی ہونے کی حیثیت سے میں بھی وہی بات کہتا ہوں) وہ بات یہ ہے کہ ایک تو ہم اللہ کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہیں۔ دوسرے یہ کہ خدائی میں کسی کو شریک نہ کریں۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم میں کوئی انسان کسی انسان کو اللہ کے بجائے اپنا مالک اور اپنا آقا نہ بنائے۔ یہ تین باتیں کہ ہم میں کوئی انسان کسی انسان کو اللہ کے بجائے اپنا مالک اور اپنا آقا نہ بنائے۔ یہ تین باتیں اگر وہ نہیں مانتے تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ یعنی ہم ان تینوں باتوں کو مانتے ہیں۔ (آل عمران، آیت 64)۔
ترجمہ: یعنی کیا وہ خدا کی اطاعت کے سوا کسی اور کی اطاعت چاہتے ہیں؟ حالانکہ خدا وہ ہے کہ زمین اور آسمان کی ہر چیز چارو ناچار اس کی اطاعت کر رہی ہے اور سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ (آل عمران 83)۔
ان دونوں آیتوں میں ایک ہی بات بیان کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ اصلی دین خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ خدا کی عبادت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس پانچ وقت اس کے آگے سجدہ کر لو۔ بلکہ اس کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ رات دن میں ہر وقت اس کے احکام کی اطاعت کرو۔ جس چیز سے اس نے منع کیا ہے۔ اس سے رک جاؤ جس چیز کا اس نے حکم کیا ہے اس پر عمل کرو۔ ہر معاملہ میں یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ تمھارا اپنا دل کیا کہتا ہے، تمھاری عقل کیا کہتی ہے، باپ دادا کیا کر گئے ہیں، خاندان اور برادری کی مرضی کیا ہے، جناب مولوی صاحب قبلہ اور جناب پیر صاحب قبلہ کیا فرماتے ہیں، اور فلاں صاحب کا کیا حکم ہے اور فلاں صاحب کی کیا مرضی ہے۔ اگر تم نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر کسی کی بات مانی تو خدائی میں اس کو شریک کیا۔ اسکو وہ درجہ دیا جو صرف خدا کا درجہ ہے۔ حکم دینے والا تو صرف خدا ہے۔ ان الحکم الاللہ۔ بندگی کے لائق تو صرف وہ ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور جس کے بل بوتے پر تم زندہ ہو۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز اسی کی اطاعت کر رہی ہے۔ کوئی پتھر کسی پتھر کی اطاعت نہیں کرتا۔ پھر کیا تم جانوروں، درختوں اور پتھروں سے بھی گئے گزرے ہو گئے کہ وہ صرف خدا کی اطاعت کریں، اور تم خدا کو چھوڑ کر انسانوں کی اطاعت کرو؟ یہ ہے وہ بات جو قرآن کی ان دونوں آیتوں میں بیان فرمائی گئی ہے۔ اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کفر اور گمراہی دراصل نکلتی کہاں سے ہے۔ قرآن مجید ہم کو بتاتا ہت کہ اس کمبخت بلا کے آنے کے تین رستے ہیں۔ پہلا راستہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں:-
ترجمہ:- یعنی اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جس نے خدا کی ہدایات کے بجائے اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے ظالم لوگوں کو خدا ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص۔ آیت 50)۔
مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کو گمراہ کرنے والی چیز انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں۔ جو شخص خواہشات کا بندہ بن گیا۔ اس کے لیے خدا کا بندہ ممکن ہی نہیں۔ وہ تو ہر وقت یہ دیکھے گا کہ مجھے روپیہ کس کام میں ملتا ہے۔ میری عزت اور شہرت کس کام میں ہوتی ہے، مجھے لذت اور لطف کس کام میں حاصل ہوتا ہے، مجھے آرام اور آسائش کس کام میں ملتی ہے۔ بس یہ چیزیں جس کام میں ہوں گی اسی کو اکٹیار کرے گا۔ چاہے خدا اس سے منع کرے۔ اور یہ چیزیں جس کام میں نہ ہوں اس کو وہ ہر گز نہ کرے گا۔ چاہے خدا اس کو حکم دے۔ تو ایسے شخص کا خدا اللہ تبارک و تعالٰی نہ ہوا۔ اس کا اپنا نفس ہی اس کا خدا ہو گیا۔ اس کو ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟ اسی بات کو دوسری جگہ قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے
ترجمہ:- یعنی اے نبی تم نے اس شخص کے حال پر غور بھی کیا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا تم نے ایسے شخص کی نگرانی کر سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ ہر گز نہیں، یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔“ (الفرقان۔ آیت 43۔44)۔
نفس کے بندے کا جانوروں سے بدتر ہونا ایسی بات ہے جس میں کسی شکی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کوئی جانور آپ کو ایسا نہ ملے گا جو خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتا ہو۔ ہر جانور وہی چیز کھاتا ہے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اسی قدر کھاتا ہے جس قدر اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اور جتنے کام جس جانور کے لیے مقرر ہیں بس اتنے ہی کرتا ہے۔ مگر یہ انسان ایسا جانور ہے کہ جب یہ اپنی خواہش کا بندہ بنتا ہے تو وہ وہ حرکتیں کر گزرتا ہے جن سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ یہ تو گمراہی کے آنے کا پہلا راستہ ہے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو رسم و رواج، جو عقیدے اور خیالات، جو رنگ ڈھنگ چلے آ رہے ہوں، آدمی ان کا غلام بن جائے اور خدا کے حکم سے بڑھ کر ان کو سمجھے، اور اگر انکے خلاف خدا کا حکم اس کے سامنے پیش کیا جائے تو کہے کہ میں تو وہی کروں گا جو میری باپ دادا کرتے تھے اور جو میرے خاندان اور قبیلے کا رواج ہے۔ جو شخص اس مرض میں مبتلا ہے وہ خدا کا بندہ کب ہوا۔ اس کے خدا تو اس کے باپ دادا اور اس کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہیں۔ اس کو یہ جھوٹا دعویٰ کرنے کا کیا حق ہے کہ میں مسلمان ہوں؟ قرآن کریم میں اس پر بھی بڑی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے۔:- اور جب کبھی ان سے کہا گیا کہ جو حکم خدا نے بھیجا ہے اس کی پیروی کرو، تو انہوں نے نے یہی کہا کہ ہم تو اس بات کی پیروی کریں گے جو ہمیں باپ دادا سے ملی ہے۔ اگر ام کے باپ دادا کسی بات کو نہ سمجھتے ہوں اور راہِ راست پر نہ ہوں تو کیا یہ پھر بھی انہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟ (البقرہ۔ آیت 170)۔
دوسری جگہ فرمایا:-
اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اس کا فرمان کی طرف جو خدا نے بھیجا ہے اور آؤ رسول کے طریقے کی طرف، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے چاہے ان کو کسی بات کا علم نہ ہو اور وہ سیدھے راستے پر ن ہوں؟ اے ایمان لانے والو! تم کو اپنی فکر ہونی چاہیے۔ اگر تم سیدھے راستے پر لگ جاؤ تو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھیں ہوئی نقصان نہ ہو گا، پھر آخڑ کار سب کو خدا کی طرف واپس جانا ہے۔ اس وقت خدا تم کو تمھارے اعمال کا نیک و بد سب کچھ بتا دے گا۔“ ( المائدہ۔ آیت 104۔105) یہ ایسی گمراہی ہے جس میں تقریباً ہر زمانے کے جاہل لوگ مبتلا رہتے ہیں اور ہمیشہ خدا کے رسولوں کی ہدایت کو ماننے سے یہی چیز انسان کو روکتی ہے۔ حضرت موسیٰ ع نے جب لوگوں کو خدا کی شریعت کی طرف بلایا تھا، اس وقت بھی لوگوں نے یہی کہا تھا
ترجمہ:- کیا تو ہمیں اس راستے سے ہٹانا چاہتا ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔( یونس۔78 ) حضرت ابراہیم نے جب اپنے قبیلے والوں کو شرک سے روکا تو انہوں نے بھی یہی کہا تھا:-
ترجمہ:- ہم نے اپنے باپ دادا کو انہی خداؤں کی بندگی کرتے ہوئے پایا ہے۔ (الانبیاء ۔ آیت 53)۔
غرض اسی طرح ہر نبی کے مقابلے میں لوگوں نے یہی حجت پیش کی ہے۔ کہ تم جو کہتے ہو یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے اس لیے ہم اسے نہیں مانتے۔
چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:-
ترجمہ:- “ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کبھی ہم نے کسی بستی میں کسی ڈرانے والے یعنی پیغمبر کو بھیجا تو اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ پیغمبر نے ان سے کہا اگر میں اس سے بہتر بات بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے تو کیا پھر بھی تم باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جاؤ گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے بھی ان کو خوب سزا دی اور اب دیکھ لو کہ ہمارے احکام کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔“( الزخرف۔ آیت:- 23۔25)۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یا تو باپ دادا ہی کی پیروی کر لو یا پھر ہمارے ہی حکم کی پیروی کرو۔ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان ہونا چاہتے ہو تو سب چھوڑ کر صرف اس بات کو مانو جو ہم نے بتائی ہے۔
ترجمہ:- جب ان سے کہا گیا کہ اس حکم کی پیروی کرو جو خدا نے بھیجا ہے تو انہوں نے کہا کہ “نہیں ہم تو اس بات کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔“ چاہے شیطان ان کو عذاب جہنم ہی کی طرف کیوں نہ بلا رہا ہو۔ جو کوئی اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کر دے اور نیکو کار ہو اس نے تو مضبوط رسی تھام لی اور آخر کار تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہیں، اور جس نے اس سے انکار کیا تو اے نبی تم کو اس کے انکار سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ سب ہماری طرف واپس آنے والے ہیں پھر ہم انھیں ان کے اعمال کا نتیجہ دکھا دیں گے۔ (لقمان۔ آیت 21۔ 23)۔
یہ گمراہی کے آنے کا دوسرا راستہ تھا۔ تیسرا راستہ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انسان جب خدا کے حکم کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے حکم ماننے لگتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں شخص بڑا آدمی ہے، اس کی بات پکی ہو گی، یا فلاں شخص کے ہاتھ میں میری روٹی ہے اس لیے اس کی بات ماننی چاہیے، فلاں شخص بڑا صاحبِ اقتدار ہے اس لیے اس کی فرمانبرداری کرنی چاہیے، یا فلاں صاحب اپنی بددعا سے مجھے تباہ کر دینگے یا اپنے ساتھ جنت میں کے جائیں گےاس لیے جو وہ کہیں وہی صحیح ہے، یا فلاں قوم بڑی ترقی کر رہی ہے، اس کے طریقے اختیار کرنے چاہیں، تو ایسے شخص پر خدا کی ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔
ترجمہ:- اگر تو نے ان بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تجھ کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ (الانعام ۔ 116)۔
یعنی آدمی سیدھے راستہ پر اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کا ایک خدا ہو۔سینکڑوں ہزاروں خدا جس نے بنا لیے ہوں، اور جو کبھی اس خدا کے کہے پر اور کبھی اس خدا کے کہے پر چلتا ہو، وہ راستہ کہاں پا سکتا ہے۔
اب آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ گمراہی کے تین بڑے بڑے سبب ہیں۔ ایک، نفس کی بندگی۔ دوسرے، ماں دادا اور خاندان اور قبیلے کے رواجوں کی بندگی۔ تیسرے، عام طور پر دنیا کے لوگوں کی بندگی جس میں دولت مند لوگ اور حکامِ وقت اور بناوٹی پیشوا، اور گمراہ قومیں سب ہی شامل ہیں۔ یہ تین بڑے بڑے بت ہیں جو خدائی کے دعوایدار بنے ہوئے ہیں۔ جو شخص مسلمان بننا چاہتا ہو اس کو سب سے پہلے ان تینوں بتوں کو توڑنا چاہیے۔ پھر وہ حقیقت میں مسلمان ہو جائے گا۔ ورنہ جس نے تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں۔ اس کا بندہ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پچاس وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کر اور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
بھائیو! آج میں نے آپ کے سامنے جن تینوں بتوں کا ذکر کیا ہے ان کی بندگی اصلی شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دئیے۔ اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دئیے۔ مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اولین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے۔ اگرچہ میرا خطاب تمام مسلمانوں ہے۔، اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا اور تمان ہندوستان میں مسلمان جس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں وہ انہی تین بتوں کی پوجا کا نتیجہ ہے۔
مگر چونکہ اس وقت میرے سامنے پنجابی بھائی ہیں اس لیے خاص طور پر ان سے کہتا ہوں کہ آپ کی تباہی اور آپ کی ذلت اور مصیبت اور کی جڑ یہ تین چیزیں ہیں جو آپ نے ابھی مجھ سے سنی ہیں۔ آپ اس پنجاب کی سر زمین میں ڈیڑھ کروڑ سے زیاد ہیں۔ اس صوبہ کی آبادی میں آدھے سے زیادہ آپ ہیں۔ اور آدھے کم میں دوسری قومیں ہیں۔ مگر اتنی بڑی قوم ہونے کے باوجود یہاں آپ کا کوئی وزن نہیں۔(1) بعض نہایت قلیل التعداد قوموں کا وزن آپ سے بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ پر بھی آپ نے کبھی غور کیا؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نفس کی بندگی، خاندانی رواجوں کی بندگی اور خدا کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی نے آپ کی طاقت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ آپ میں راجپوت ہیں، گکھڑ ہیں، مغل ہیں، جاٹ ہیں اور بہت سی قومیں ہیں۔ اسلام نے ان سب قوموں کو ایک قوم، ایک دوسرے کا بھائی، ایک پختہ دیوار بننے کے لیے کہا تھا جس کی اینٹ سے اینٹ جڑی ہوئی ہو، مگر آپ اب بھی وہی پرانے ہندوانہ خیالات لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جس طرح ہندوؤں میں الگ الگ گوتریں ہیں، اسی طرح آپ میں بھی اب تک قبیلے قبیلے الگ ہیں۔ آپس میں مسلمانوں کی طرح شادی بیاہ نہیں۔ ایک دوسرے سے برادری اور بھائی چارہ نہیں۔ زبان سے آپ ایک دوسرے کو مسلمان بھائی کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں آپ کے درمیان وہی سب امتیازات ہیں جو اسلام سے پہلے تھے۔ ان امتیازات نے آپ کو ایک مضبوط دیوار نہیں بننے دیا۔ آپ کی ایک ایک اینٹ الگ ہے۔ آپ نہ مل کر اٹھ سکتے ہیں اور نہ مل کر کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق آپ سے کہا جائے کہ توڑو ان امتیازات کو، اور آپس میں پھر ایک ہو جاؤ، تو آپ کیا کہیں گے؟ بس وہی ایک بات، یعنی ہمارے باپ دادا سے جو رواج چلے آ رہے ہیں ان کو ہم نہیں توڑ سکتے۔ اس کا جواب خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے۔ بس یہی کہ تم نہ توڑو ان رواجوں کو، نہ چھوڑو ہندوانہ رسموں کی تقلید کو ہم بھی تم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ اور تمھاری کثرت تعداد کے باوجود تم کو ذلیل و خوار کر کے دکھائیں گے۔
اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ تمھاری وراثت میں لڑکے اور لڑکیاں سب شریک ہیں۔ آپ اس کا جواب کیا دیتے ہیں؟ یہ کہ ہمارے باپ دادا کے قانون میں لڑکے لڑکیاں شریک نہیں ہیں اور یہ کہ ہم خدا کے قانون کے بجائے باپ دادا کا قانون مانتے ہیں۔ خدارا مجھے بتائیے کیا اسلام اسی کا نام ہے؟ آپ سے کہا جاتا ہے کہ اس خاندانی قانون کو توڑئیے۔ آپ میں سے ہر شخص کہتا ہے کہ جب سب توڑیں گے میں بھی توڑ دوں گا۔ ورنہ اگر دوسروں نے لڑکی کو حصہ نہ دیا، اور میں نے دے دیا تو میرے گھر کی دولت تو دوسروں کے پاس چلی جائے گی، مگر دوسرے کے گھر کی دولت میرے گھر میں نہ آئے گی۔ غور کیجئے کہ اس جواب کے کیا معنی ہیں؟ کیا خدا کے قانون کی اطاعت اسی شرط سے کی جائے گی کہ دوسرے اطاعت کریں تو آپ بھی کریں گے؟ کل آپ کہیں گے کہ دوسرے زنا کریں گے تو میں بھی کروں گا۔ دوسرے چوری کریں تو میں بھی کروں گا۔ غرض دوسرے جب تک سب گناہ نہ چھوڑیں گے، میں بھی اس وقت تک سب گناہ کرتا رہوں گا۔ بات یہ ہے کہ اس معاملہ میں تینوں بتوں کی پرستش ہو رہی ہے۔ نفس کی بندگی بھی ہے باپ دادا کی بندگی بھی۔ اور مشرک قوموں کی بندگی بھی۔ اور تینوں کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہے۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں۔ ورنہ آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو بے شمار اسی قسم کے امراض آپ کے اندر پھیلے ہوئے نظر آئیں گے، اور ان سب میں آپ یہی دیکھیں گے کہ کہیں ایک بت کی پرستش ہے اور کہیں دو بتوں کی۔ اور کہیں تینوں بتوں کی۔ جب یہ بت پوجے جا رہے ہوں، اور ان کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہو تو آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ آپ پر ان رحمتوں کی بارش ہو گی جن کا وعدہ سچے مسلمانوں سے کیا گیا ہے؟
سید ابو الاعلٰی مودودی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔