ایک شخص نے ایک بھیڑ پال رکھی
تھی وہ روزانہ اُسے پاس کی چراگاہ میں چرنے کے لیے لے جاتا جہاں دوسرے
لوگوں کی گائے، بھینس اور بھیڑیں بھی چر رہی ہوتی تھیں، آہستہ آہستہ اِس
بھیڑ کی دوسری بھیڑوں سے دوستی ہو گئی۔ اور اکثر چرتے چرتے اُن کا موضوعِ
گفتگو یہ ہوتا تھا کہ ہم سب بھیڑیں، گائے،
بھینس اور بکریاں اپنے مالکوں کی خاطر تواضع کیلئے پیدا کی گئیں ہیں۔ اور
اُن کا جب دل چاہے وہ ہمیں قربان کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتے ہیں۔
لیکن انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ اُن کے مالک کب انہیں قربان کر سکتے ہیں، تو اُن میں سے جو سب سے زیادہ سمجھدار بھیڑ تھی اُس نے کہا، "دیکھو! جس دِن تمہارے مالک تمہیں بہت پیار کریں، چارہ کھلائیں، پانی پلائیں تو سمجھ لو کہ اُس دِن تمہاری قربانی کا دِن ہے۔۔!"
چنانچہ یہ بات اُس بھیڑ نے بھی اپنے پلے باندھ لی، اور ایک دِن بالکل ویسا ہی ہوا، مالک نے پہلے تو اُسے بڑے پیار سے چارہ کھلایا، پھر پانی پلایا اور پھر اگلے ہی لمحے اُسے زمین پر لیٹا کر ایک تیز دھار والا آلہ پکڑ لیا۔ بھیڑ سمجھ آ گئی کہ آج اُس کی قربانی کا دِن ہے سو اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن جب کافی دیر بعد اُسے محسوس ہوا کہ مالک اُسے ذبح نہیں کر رہا بلکہ صرف اُس کی اُون اُتار رہا ہے تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
اور پھر یہ سلسلہ ہر دو، چار مہینے بعد وقفے وقفے سے چلتا رہا، اور اب تو بھیڑ کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مالک اُسے کبھی بھی قربان نہیں کرے گا، اور جب بھی وہ اُسے لیٹائے گا تو صرف اُس کی اُون ہی اُتارے گا۔
لیکن ایک دِن جب مالک نے اُسے حسبِ سابق زمین پر لیٹایا تو تب بھی وہ اِسی خوش فہمی میں تھی کہ وہ اُسے قربان نہیں کرے گا، جس کے لیے وہ تیار بھی نہیں تھی۔ اور پھر اگلے ہی لمحے مالک کی تیز دھار چھری اُس کی گردن پر چل گئی اور وہ موت کی آغوش میں پہنچ گئی۔
ہم انسانوں کی زندگی بھی بالکل ایسی ہی ہے، ہم بھی جب پہلی بار کسی بیماری یا مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں تو یہی سوچتے ہیں کہ بس اب تو موت آئی کے آئی، بہت روتے اور گڑگڑاتے ہیں، اور جب ہم وہاں سے اللہ کی رضا سے بچ نکلتے ہیں تو اگلی بار اُس بیماری یا مصیبت کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتے اور یہی سوچتے ہیں کہ یہ تو محض کچھ پلوں کی تکلیف ہے اور ہم دوبارہ ویسے ہی بچ نکلیں گے۔۔۔!!!
لیکن پھر کس دِن اچانک وہ بیماری یا مصیبت ہمارے لیے موت کا عندیا لے کر آتی ہے ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا، جس کے لیے نہ تو ہم نے کوئی تیاری کی ہوتی ہے اور نہ ہی جس کی ہمیں کوئی اُمید ہوتی ہے۔ ایسی ناگہانی اموات کی بہت سی مثالیں ہم روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں۔
لہٰذا میرے عزیز دوستو! لوگوں کے ساتھ اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو ہمیشہ درست رکھو اور لین دین کے سارے حساب کتاب بے باک رکھو، کیا پتہ کب کہیں سے اچانک موت آ جائے اور ہمیں موقع ہی نہ ملے۔
اور جو جو معاملات اور حقوق تاخیر کا شکار ہیں، انہیں کسی کاغذ پر وصیت کے طور پر لکھ رکھو تاکہ بعد والے انہیں پڑھ کے اپنی حیثیت کے مطابق پورا کر سکیں اور پھر ہو سکتا ہے اُن حقوق اور معاملات کی بابت ہمارے اُوپر آخرت کی سختیاں کچھ کم ہو سکیں۔
لیکن انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ اُن کے مالک کب انہیں قربان کر سکتے ہیں، تو اُن میں سے جو سب سے زیادہ سمجھدار بھیڑ تھی اُس نے کہا، "دیکھو! جس دِن تمہارے مالک تمہیں بہت پیار کریں، چارہ کھلائیں، پانی پلائیں تو سمجھ لو کہ اُس دِن تمہاری قربانی کا دِن ہے۔۔!"
چنانچہ یہ بات اُس بھیڑ نے بھی اپنے پلے باندھ لی، اور ایک دِن بالکل ویسا ہی ہوا، مالک نے پہلے تو اُسے بڑے پیار سے چارہ کھلایا، پھر پانی پلایا اور پھر اگلے ہی لمحے اُسے زمین پر لیٹا کر ایک تیز دھار والا آلہ پکڑ لیا۔ بھیڑ سمجھ آ گئی کہ آج اُس کی قربانی کا دِن ہے سو اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن جب کافی دیر بعد اُسے محسوس ہوا کہ مالک اُسے ذبح نہیں کر رہا بلکہ صرف اُس کی اُون اُتار رہا ہے تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
اور پھر یہ سلسلہ ہر دو، چار مہینے بعد وقفے وقفے سے چلتا رہا، اور اب تو بھیڑ کو بھی یقین ہو گیا تھا کہ مالک اُسے کبھی بھی قربان نہیں کرے گا، اور جب بھی وہ اُسے لیٹائے گا تو صرف اُس کی اُون ہی اُتارے گا۔
لیکن ایک دِن جب مالک نے اُسے حسبِ سابق زمین پر لیٹایا تو تب بھی وہ اِسی خوش فہمی میں تھی کہ وہ اُسے قربان نہیں کرے گا، جس کے لیے وہ تیار بھی نہیں تھی۔ اور پھر اگلے ہی لمحے مالک کی تیز دھار چھری اُس کی گردن پر چل گئی اور وہ موت کی آغوش میں پہنچ گئی۔
ہم انسانوں کی زندگی بھی بالکل ایسی ہی ہے، ہم بھی جب پہلی بار کسی بیماری یا مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں تو یہی سوچتے ہیں کہ بس اب تو موت آئی کے آئی، بہت روتے اور گڑگڑاتے ہیں، اور جب ہم وہاں سے اللہ کی رضا سے بچ نکلتے ہیں تو اگلی بار اُس بیماری یا مصیبت کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتے اور یہی سوچتے ہیں کہ یہ تو محض کچھ پلوں کی تکلیف ہے اور ہم دوبارہ ویسے ہی بچ نکلیں گے۔۔۔!!!
لیکن پھر کس دِن اچانک وہ بیماری یا مصیبت ہمارے لیے موت کا عندیا لے کر آتی ہے ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا، جس کے لیے نہ تو ہم نے کوئی تیاری کی ہوتی ہے اور نہ ہی جس کی ہمیں کوئی اُمید ہوتی ہے۔ ایسی ناگہانی اموات کی بہت سی مثالیں ہم روزانہ سنتے اور دیکھتے ہیں۔
لہٰذا میرے عزیز دوستو! لوگوں کے ساتھ اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو ہمیشہ درست رکھو اور لین دین کے سارے حساب کتاب بے باک رکھو، کیا پتہ کب کہیں سے اچانک موت آ جائے اور ہمیں موقع ہی نہ ملے۔
اور جو جو معاملات اور حقوق تاخیر کا شکار ہیں، انہیں کسی کاغذ پر وصیت کے طور پر لکھ رکھو تاکہ بعد والے انہیں پڑھ کے اپنی حیثیت کے مطابق پورا کر سکیں اور پھر ہو سکتا ہے اُن حقوق اور معاملات کی بابت ہمارے اُوپر آخرت کی سختیاں کچھ کم ہو سکیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔