ہجرت کے بعد پہلا دستہ حمزہ کی قیادت میں سیف البحر کی جانب روانہ کیا گیا، جس کے ذمے شام سے پلٹنے والے قریش کے تجارتی قافلے کی نقل وحرکت کا مشاہدہ کرناتھا۔ہجرت کے وقت قریش نے مسلمانوں کے مال واسباب پر قبضہ کرلیا تھا اوران وہ اس سے اپنی تجارت کوفائدہ پہنچارہے تھے ،لہذا ان کی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے حضور صلى الله عليه و سلم قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتےتھے۔گواس سریہ میں فریقین کے مابین کوئی تصادم نہیں ہوا،تاہم عرب قبائل پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ ملک میں قریش کے علاوہ بھی کوئی طاقت موجود ہے۔
پہلی مہم کے چند روز بعد انھیں مقاصد کے پیش نظر عبیدہ بن حارث کی قیادت میں ساٹھ [تااسی]سواروں پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیاگیا۔مکہ جانے والے راستے میں رابغ کے مقام پر قریش کے دوسو سواروں سے ان کاآمنا سامنا ہوگیا۔گوچند ایک تیروں کا تبادلہ ہوا،تاہم اپنی شکست کے خوف سے قریش نے ٹکراؤ سے بچنے میں عافیت سمجھی ۔۳
قریش کے تجارتی قافلوں پردباؤبڑھانے کے لیے یکے بعد دیگردستے بھیجے گئے، جن میں سے بعض کی قیادت خود نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے فرماائی ۔ان میں سے ایک ابوایادووان کی طرف اور دوسرا بواط کی سمت روانہ کیاگیا۔ان کا مقصد یہ تھا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کو ہراساں کیاجائے اور [بدلی ہوئی صورت حال سے ]آگاہ کردیا جائے ۔۴ غزوہ ابوا کے دوران ہی آپ صلى الله عليه و سلم نے بنو ضمرہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کی روسے فریقین ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اوریہ کہ بنو ضمرہ مسلمانوں کے خلاف کسی جارح کی حمایت نہیں کرے گا۔
غزوہ بدر سے کچھ عرصہ قبل حضور صلى الله عليه و سلم نے عبد اللہ بن جحش کی سرکردگی میں دس [،آٹھ بارہ ]افراد پر مشتمل ایک دستہ مکہ اورطائف کے درمیان نخلہ کی جانب روانہ کیا۔انھیں قریش کے تجارتی قافلے کی گھات میں لگ جانے اوراس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاحکم دیاگیا تھا۔یہ لوگ نخلہ میں قیام پذیر تھے کہ اسی اثنا میں قریش کاایک قافلہ گزرا، جو طائف سے مکہ واپس جارہاتھا،تصادم کی غیر متوقع صورت حال کے پیدا ہوجانے سے ایک مشرک ماراگیا، ایک فرار ہوگیا،جب کہ دوقیدیوں اورسامان قافلہ کے ساتھ یہ دستہ مدینہ پہنچ گیا ۔جنگ کے لیے حرام قرار دیے گئے ماہ رجب کااختتام اور شعبان کی آمد آمد تھی ،لہذا شکوک وشبہات نے عجیب سی صورت حال پیداکردی ۔قریش ، یہود اور منافقین نے ،جودرپردہ اسلام دشمنی میں اتحادی تھے ،حرام مہینوں خوں ریزی کاالزام عائد کرکے اس واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا۔
چوں کہ آپ صلى الله عليه و سلم نے لڑائی کا حکم نہیں دیاتھا، اس لیے آپ صلى الله عليه و سلم نےاس پروپیگنڈے میں پیش پیش لوگوں پر واضح کردیا کہ اس لڑائی کے احکامات صادر نہیں کیے گئے تھے ۔دیگر صحابہ نے بھی دستے میں شامل اصحاب سے ناراضی کااظہار کیا کہ حضور صلى الله عليه و سلم کی اجازت کے بغیر انھوں نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔تاہم اللہ تعالی نے ان کی نیک نیتی کے پیش نظرتسلی دی اور وحی نازل فرمائی ۔۵
(بقرہ۲:۲۱۷تا۲۱۸)
(اے محمد!)لوگ تم سے عزت والت مہینوں می لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔کہہ دوکہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ )ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اوراس سے کفر کرنا اور مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے )سے (بندکرنا)اوراہل مسجد کواس میں سے نکال دینا (جویہ کفار کرتے ہیں )اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ )ہے ۔اور فتنہ انگیزی خوں ریزی سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے ،یہاں تک کہ اگر مقدوررکھیں توتم کو تمھارے دین سے بھیر دیں اورجوکوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو)جائے اور کافر ہی مرے گاتوایسے لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اوریہی لوگ دوزخ (میں جانے )والے ہیں ،جس میں ہمیشہ رہیں گے ۔جو لوگ ایمان لائے اوراللہ کے لیے وطن چھوڑ گئے اور(کفار سے )جنگ کرتے رہے ،وہی اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اللہ بخشنے والا(اور )رحمت کرنے والاہے۔
ان آیات میں مشرکین ،یہود اورمنافقین کے الزامات کاجواب مل گیا۔اگرچہ حقیقت یہی تھی کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے ،لیکن وہ لوگ ، جوتیرہ برس تک مومنین کو محض اس بات پر اذیت پہنچاتے رہے کہ وہ ایک اللہ پرایمان رکھتے ہیں ، کس منہ سے انھیں نے موردالزام ٹھہرارہے تھے ۔انھوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکال دیاتھا، بلکہ ان پر مسجدالحرام کے دروازے بھی بندکر دیے تھے ،حالاں کہ دوہزار برس سے ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہواتھا کہ کسی نے اس قسم کی قدغن لگائی ہو۔بدتہذیبی اور بداخلاقی پرمبنی اپنے ان رویوں کے بعد انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھاکہ ایک چھوٹے سے حادثے پر اس طرح شور مچائیں ، خصوصا ان حالات میں، جب کہ نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے اس کا حکم بھی نہ دیاہو۔
پہلی مہم کے چند روز بعد انھیں مقاصد کے پیش نظر عبیدہ بن حارث کی قیادت میں ساٹھ [تااسی]سواروں پر مشتمل ایک دستہ روانہ کیاگیا۔مکہ جانے والے راستے میں رابغ کے مقام پر قریش کے دوسو سواروں سے ان کاآمنا سامنا ہوگیا۔گوچند ایک تیروں کا تبادلہ ہوا،تاہم اپنی شکست کے خوف سے قریش نے ٹکراؤ سے بچنے میں عافیت سمجھی ۔۳
قریش کے تجارتی قافلوں پردباؤبڑھانے کے لیے یکے بعد دیگردستے بھیجے گئے، جن میں سے بعض کی قیادت خود نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے فرماائی ۔ان میں سے ایک ابوایادووان کی طرف اور دوسرا بواط کی سمت روانہ کیاگیا۔ان کا مقصد یہ تھا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کو ہراساں کیاجائے اور [بدلی ہوئی صورت حال سے ]آگاہ کردیا جائے ۔۴ غزوہ ابوا کے دوران ہی آپ صلى الله عليه و سلم نے بنو ضمرہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کی روسے فریقین ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اوریہ کہ بنو ضمرہ مسلمانوں کے خلاف کسی جارح کی حمایت نہیں کرے گا۔
غزوہ بدر سے کچھ عرصہ قبل حضور صلى الله عليه و سلم نے عبد اللہ بن جحش کی سرکردگی میں دس [،آٹھ بارہ ]افراد پر مشتمل ایک دستہ مکہ اورطائف کے درمیان نخلہ کی جانب روانہ کیا۔انھیں قریش کے تجارتی قافلے کی گھات میں لگ جانے اوراس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاحکم دیاگیا تھا۔یہ لوگ نخلہ میں قیام پذیر تھے کہ اسی اثنا میں قریش کاایک قافلہ گزرا، جو طائف سے مکہ واپس جارہاتھا،تصادم کی غیر متوقع صورت حال کے پیدا ہوجانے سے ایک مشرک ماراگیا، ایک فرار ہوگیا،جب کہ دوقیدیوں اورسامان قافلہ کے ساتھ یہ دستہ مدینہ پہنچ گیا ۔جنگ کے لیے حرام قرار دیے گئے ماہ رجب کااختتام اور شعبان کی آمد آمد تھی ،لہذا شکوک وشبہات نے عجیب سی صورت حال پیداکردی ۔قریش ، یہود اور منافقین نے ،جودرپردہ اسلام دشمنی میں اتحادی تھے ،حرام مہینوں خوں ریزی کاالزام عائد کرکے اس واقعہ کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا۔
چوں کہ آپ صلى الله عليه و سلم نے لڑائی کا حکم نہیں دیاتھا، اس لیے آپ صلى الله عليه و سلم نےاس پروپیگنڈے میں پیش پیش لوگوں پر واضح کردیا کہ اس لڑائی کے احکامات صادر نہیں کیے گئے تھے ۔دیگر صحابہ نے بھی دستے میں شامل اصحاب سے ناراضی کااظہار کیا کہ حضور صلى الله عليه و سلم کی اجازت کے بغیر انھوں نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔تاہم اللہ تعالی نے ان کی نیک نیتی کے پیش نظرتسلی دی اور وحی نازل فرمائی ۔۵
(بقرہ۲:۲۱۷تا۲۱۸)
(اے محمد!)لوگ تم سے عزت والت مہینوں می لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔کہہ دوکہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ )ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اوراس سے کفر کرنا اور مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے )سے (بندکرنا)اوراہل مسجد کواس میں سے نکال دینا (جویہ کفار کرتے ہیں )اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ )ہے ۔اور فتنہ انگیزی خوں ریزی سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے ،یہاں تک کہ اگر مقدوررکھیں توتم کو تمھارے دین سے بھیر دیں اورجوکوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو)جائے اور کافر ہی مرے گاتوایسے لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اوریہی لوگ دوزخ (میں جانے )والے ہیں ،جس میں ہمیشہ رہیں گے ۔جو لوگ ایمان لائے اوراللہ کے لیے وطن چھوڑ گئے اور(کفار سے )جنگ کرتے رہے ،وہی اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اللہ بخشنے والا(اور )رحمت کرنے والاہے۔
ان آیات میں مشرکین ،یہود اورمنافقین کے الزامات کاجواب مل گیا۔اگرچہ حقیقت یہی تھی کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے ،لیکن وہ لوگ ، جوتیرہ برس تک مومنین کو محض اس بات پر اذیت پہنچاتے رہے کہ وہ ایک اللہ پرایمان رکھتے ہیں ، کس منہ سے انھیں نے موردالزام ٹھہرارہے تھے ۔انھوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکال دیاتھا، بلکہ ان پر مسجدالحرام کے دروازے بھی بندکر دیے تھے ،حالاں کہ دوہزار برس سے ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہواتھا کہ کسی نے اس قسم کی قدغن لگائی ہو۔بدتہذیبی اور بداخلاقی پرمبنی اپنے ان رویوں کے بعد انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھاکہ ایک چھوٹے سے حادثے پر اس طرح شور مچائیں ، خصوصا ان حالات میں، جب کہ نبی کریم صلى الله عليه و سلم نے اس کا حکم بھی نہ دیاہو۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔