مشرکین مکہ کو اندیشہ تھا کہ مدینہ میں مسلمانوں کی قوت کے مجتمع ہونے سے. شام کی طرف جانے والا ان کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لیے غیر محفوظہوجائے گا،لہذا انھوں نے عبد اللہ بن اُبی کو لکھا ۔ 'اگر اہل مدینہ نے آپ صلى الله عليه و سلم کوشہر بدرنہ کیا تو قریش ان کے مردوں کو قتل اورعورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے ۔' حضور صلى الله عليه و سلم نے اس فتنے کو وقتی طو رپر دبادیا۔مزید برآن سعد بن معاذ جو عمرہ کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے ،مشرکین نے انھیں مسجد الحرام کے دروازے پر روک لیااوردیگر مناسک اداکرنے کی بھی اجازت نہ دی ۔مشرکین نے بڑی رازداری سے مدینہ پر چڑھائی کی منصوبہ بندی کی ۔ان حالات میں مسلمانوں کے لیے اس کے سواکوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ قریش کے تجارتی راستوں کی ناکہ بندی کردیں اوردیگر قبائل کواسلام دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے مجبور کریں ۔مشرکین مکہ،اس کے اتحاد ی قبائل ،اہل یہوداور منافقین کو سبق سکھانے کا یہ بہترین وقت تھا۔یہ لوگ اسلام کے فروغ کوکسی صورت میں برداشت نہیں کرپارہے تھے اوروہ اسے لوگوں کے دلوں ،حتی کہ روئے زمین سے نیست ونابود کردینا چاہتے تھے ۔حالاں کہ مشرکین اور کفار کو نوراسلام کے سامنے بالآخر جھکنا ہی تھا۔
آخر کاردوہجری کے اوائل میں ابوسفیان کی قیادت میں ایک تجارتی قافلہ کم و بیش چالیس محافظوں کے ساتھ شام سے مکہ کے لیے محو سفر تھا۔جب مسلمانوں کی حدود سے گزرنے لگا تواس خدشے کے پیش نظر کہ مبادا مسلمان ان پر حملہ کردیں ، ابوسفیا ن نے مدداورکمک کے لیے ایک قاصد مکہ کی جانب دوڑادیا۔
اس خبر سے مکہ میں افراتفری پھیل گئی ،لہذاسرداران قریش نے نبی کریم صلى الله عليه و سلم کے خلاف بھرپور جنگ کا فیصلہ کرلیااور مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کو جڑسے اکھیڑ دینے کے ارادے سے ایک ہزار کا لاؤ لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوگئے ۔اس سے ان کا مستقبل میں بھی اپنے تجارتی راستوں کو یقینی طور پر محفوظ بنایا جاسکے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم اپنی منصبی ذمہ داریوں سے کماحقہ آگاہ تھے ،اس لیے انھیں معلوم
تھا کہ ایک معمولی سی فروگزاشت یاکوتاہی سے اشاعت اسلام کے عمل کو ناقابل تلافی نقصا ن پہنچ سکتاہے ۔کفار اچانک حملے کرکے مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کو نیست ونابود کرسکتے تھے ۔صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر یہ بات بھی مسلمانوں کے سیاسی ودفاعی برتری کے خلاف تھی کہ قریش مکہ کے قافلے اپنی فوجی قوت کے بل بوتےپرآزادانہ تجارت کے لیے آتے جاتےرہتے۔مسلمانوں کی یہ برتری ایک دفعہ کھوجاتی توان کی زندگی،مال واسباب حتی کہ عزت وناموس تک خطرات میں گھرجاتے ۔
تمام دست یاب وسائل کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کرکے حضور صلى الله عليه و سلم مدینہ سےروانہ ہوئے ۔اگرچہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم قریش سے فیصلہ کن معرکے کا ارادہ کرچکے تھے،تاہم مسلمانوں کی اکثریت قریش کے تجارتی قافلے پرغلبہ پانے کی آرزومندتھی ۔ صورت حال سے آگہی کے لیے حضور صلى الله عليه و سلمنے اپنے صحابہ کو جمع کیااور مطلع کیا کہ قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت مدینہ کے شمال میں ہے، جب کہ ان کالشکر جنوب کی طرف سے مدینہ کی طرف بڑھ رہاہے ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان دونوں قافلوں پر انھیں غلبہ عطا فرمائے گا۔ان یہ مسلمانوں پرمنحصر ہے کہ وہ تجارتی قافلے پر حملہ کرتے ہیں یاان کے مسلح لشکرپر۔۹ حضور صلى الله عليه و سلمکی منشاکو سمجھتے ہوئے مقداد بن عمر وانصاری سے عرض کیا:
'یارسول اللہ صلى الله عليه و سلم !جوحکم آپ صلى الله عليه و سلم کواللہ تعالی کی طرف سے ملاہے ،اس کے لیے تیارہوجائیے ۔ہم لوگ بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے ۔'[اگرلڑنا ہی ضرور ہے]توتم اورتمھارا خدا جاؤاورلڑو،ہم یہیں بیٹھے رہیں گے ۔' ۱۰ قسم ہے اس ذات کی ،جس نے آپ صلى الله عليه و سلم کو حق وصداقت کے ساتھ بھیجا ہے ،اگر آپ صلى الله عليه و سلم [اقصاے یمن کے ایک مقام ]برک الغمادتک جائیں گے توہم ساتھ ساتھ ہوں گے اور آپ صلى الله عليه و سلم کودرمیان لیتے ہوئے آگے پیچھے ،دائیں بائیں جنگ کریں گے ۔' ۱۱
غزوہ بدر تک حضور صلى الله عليه و سلم نے کسی فوجی دستے میں شمولیت کے لیے انصار کونہیں کہاتھا۔انصارکے لیے اسلام سے اپنی وفاداری کے عملی اظہارکایہ پہلاموقع تھا ۔ انصارکوبراہ راست مخاطب کیے بغیر حضور صلى الله عليه و سلم نے حاضرین کے رو بہ رو دو صورتیں پیش کیں۔سعد بن معاذ سمجھ گئے کہ حضور صلى الله عليه و سلم انصار کا نکتہ نظر معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔لہذاوہ اٹھے اورعرض کیا ۔ 'یارسول اللہ!کیاآپ صلى الله عليه و سلم کاروے سخن انصار کی طرف ہے ۔باخد امیں آپ صلى الله عليه و سلم کی تصدیق کرتاہوں اورشہادت دیتاہوں کہ آپ صلى الله عليه و سلمجو کچھ فرماتے ہیں ،وہ حق ہے۔ہم نے قبل ازیں سمع و طاعت کے معاہدات بھی آپ صلى الله عليه و سلم سے کیے ہیں،لہذا ہمارا عہد ہے کہ حضور جوارادہ فرمائیں گے ،اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا۔' ۱۲
یوں اتفاق رائے سے جنگ کافیصلہ ہوااوریہ منشائے خداوندی تھا
(انفال ۸:۷تا۸)
اور(اس وقت کویادکرو)جب اللہ تم سے وعدہ کرتاتھاکہ (ابوسفیان اورابوجہل کے)دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمھار ا(مسخر )ہوجائے گااورتم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بے (شان و)شوکت (یعنی بے ہتھیار )ہے،وہ تمھارے ہاتھ آجائے اوراللہ چاہتا تھاکہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے او رکافروں کی جڑ کاٹ (کر پھینک )دے ،تاکہ سچ کو سچ اورجھوٹ کو جھوٹ کردے ،گومشرک ناخوش ہی ہوں۔
کفار مکہ کا مسلح لشکر ایک ہزار جنگ جوؤں مشتمل تھا، جس میں چھ سوزرہ پوش اور دوسوسوار شامل تھے ۔لشکرکے ساتھ ساتھ گائک اوررقاصائیں بھی تھیں۔راستے میں جہاں کہیں پڑاؤڈالاجاتا ، محفل رقص وسرودکااہتمام کیاجاتا۔مقصد یہ تھا کہ دیگر قبائل اورآس پاس کے علاقوں پران کی قابل تسخیر فوجی برتری اورعددی قوت کی دھاک بیٹھ جائے ۔۱۳ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس لشکر کے پیش نظر کوئی اعلی جنگی مقاصد نہ تھے ۔
دوسری جانب مشرکین کے اس لشکر کاسامنا کرنے کے لیے کم وبیش ۳۱۳ مسلمان روانہ ہورہے تھے۔اسلامی لشکر میں۸۶مہاجرین اورباقی انصارشامل تھے۔ وسائل کے فقدان کایہ عالم تھاکہ ان کے پاس دو تین گھوڑے اورستر اونٹ تھے ، جس کی وجہ سے تین تین ،چارچارآدمی باری باری ان پر سواری کررہے تھے ۔خود حضورصلى الله عليه و سلم دو صحابہ کے ساتھ ایک سواری میں شامل ہوئے آپ صلى الله عليه و سلم کوسوار ہونے کی پیش کش کی تو آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'تم لوگ طاقت میں مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو۔ثواب کی مجھے بھی تمھاری ہی طرح ضرورت ہے۔' ۱۴
مجاہدین اپنی زندگیاںاسلام کے لیے وقف کرچکے تھے ۔اللہ تعالی کی طرف سے پہلے ہی فتح وظفر کاوعدہ ہوچکا تھااوراب اس کی ایفا کاوقت آن پہنچا تھا ۔ایک لمحہ کی اونگھ میں آپ صلى الله عليه و سلم کونصر ت کاپیغام موصول ہوگیا:
(انفال۸:۴۴)
اوراُس وقت جب تم ایک دوسرے کے مقابل ہوئے توکافروں کو تمھاری نظروں میں تھوڑا کرکےدکھاتاتھا اورتم کوان کی نگاہوں میں تھوڑاکرکے دکھاتاتھا،تاکہ اللہ کوجوکام کرنامنظور تھا، اُسے کرڈالے۔
آخرکاردونوں لشکرمقابلے کے لیے صف آرا ہوگئے ،مشرکین کی تعداد مسلمانوں سے تین گناتھی۔مزیدبرآں مسلمان جنگی سازوسامان کے اعتبار سے بھی ان سے پیچھےتھے ،تاہم ان کی جنگ اعلی مقاصد کے حصول ،دین اسلام کی سربلندی ،اخلاقی اقدار کے فروغ اورانصاف کی ترویج کے لیے تھی اوروہ اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ بھی تھے ۔یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ لےکر حاضر ہوگئے تھے ۔اسلامی لشکر نے دشمن کے پہنچنے سے پہلے میدان جنگ میں میں خیمے نصب کرلئے اورچشموں پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔پھریہ کہ جنگ سے پہلے آنے والا طوفان اورموسلادھاربارش مسلمانوں کے لیے سودمندثابت ہوئی۔مسلمانوں نے ایک حوض بناکرساراپانی اس میں جمع کر لی بارش کی برکت سے زمین ہموار ہوگئی اورریت سخت ہوگئی ، جس سے مسلمانوں کو قدم ٹکانے میں مددملی ۔دوسری طرف ،جہاں قریش نے پڑاؤڈالا تھاا، زمین کیچڑ میں تبدیل ہوگئی ۔مسلمانوں پر رحمتوں کے نزول کے علاوہ نیند کی چادر اوڑھادی گئی اوران کے دلوں کو مضبوط کردیاگیا۔ ۱۵
میدان کے بالائی حصے میں،جہاں سے تمام میدان جنگ پر نظر پڑتی تھی ،حضور صلى الله عليه و سلم نے صفیں درست کرنے کا حکم دیا۔لشکر کے تین حصے کیے ؛ایک کو میدان کے مرکز میں متعین کیا، جب کہ دوسرے دونوں دستوں کو عقب میں ۔مرکزی دستے میں مہاجرین وانصارکے سرکردہ سردارشامل تھے،جو وفاداری میں سب سے بڑھ کرتھے حضور صلى الله عليه و سلم کاعلم مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں تھا۔ان کا تعلق مکے کے ایک مال دارخاندان سے تھااور انھوں نے نوجوانی میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔ان کے حسن و رعنائی کی بڑی شہرت تھی۔[زمانہ جاہلیت میں جب]وہ باہر نکلتے توریشم وکم خواب میں ملبوس اس وجیہہ نوجوان کے دیدار کے لیے مکہ کی لڑکیاں گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکا کرتی تھیں ،تاہم قبول اسلام کےبعد ان کا شمار حضور صلى الله عليه و سلم کے جاں نثاروں میں ہونے لگا۔ان کے پاس جوکچھ تھا،وہ سب راہ خدا میں قربان کردیااوربالآخر شہادت کے مرتبے پرفائز ہوگئے ۔غزوہ اُحد میں دوسری بار انھیں حضور صلى الله عليه و سلم کاعلم بردار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔دوران جنگ جب ان کا دایاں بازو کٹ گیا توانھوں نے جھنڈا بائیں بازوسے تھام لیا ،جب وہ بھی قلم ہوگیا تواسے سینے سے چمٹا لیا اورآخرکار [عمر وبن قمیہ نے]انھیں شہید کردیا۔ ۱۶
دوسرے دودستوں کی قیادت علی اور سعد بن معاذ کررہے تھے ۔علی کی شجاعت اوروفاداری مشہورہے ۔جس وقت حضور صلى الله عليه و سلم نے اپنے خاندان کو اکٹھا کرکے اسلام کی طرف بلایا اورپوچھا کہ تم میں سے کون ہے ،جومیری مدد کرے ۔اس مو قع پر نوسالہ علی نے جواب دیاتھاکہ میں آپ صلى الله عليه و سلم کی مددکروں گا۔۱۷ پھر ہجرت کی رات علی ہی آپ صلى الله عليه و سلم کے بستر پر آرام فرماہوئے ،تاکہ حضور صلى الله عليه و سلم بہ حفاظت مکہ سے نکل سکیں۔۱۸ حضور صلى الله عليه و سلم کے دروازے پر گھات لگا کر بیٹھنے والے سمجھے کہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم سورہے ہیں۔وہ وقت صبح کے منتظرتھے ،تاہم جب انھیں حقیقت حال کا علم ہوا،اس وقت تک حضور صلى الله عليه و سلم مکہ سے باہر غارثور تک پہنچ چکے تھے۔علی نے اپنا تن من دھن سبھی کچھ راہ خدا میں وقف کردیاتھا۔
ضروری اقدام اٹھاتے ہوئے جنگی تیاریاں مکمل کرلی گئیں اورتمام وسائل کو مجتمعکرکے باصلاحیت صحابہ کو مختلف دستوں کی قیادت سونپی گئی ۔میدان کے بالائی حصے میں صف بندی کرکے حضور صلى الله عليه و سلم نے اپناخیمہ وہاں نصب کیا،جہاں سے میدان جنگ کا پورا نقشہ آپ صلى الله عليه و سلم کے سامنے ہواورجہاں سے آپ صلى الله عليه و سلم کے احکاماتبہ سہولت مجاہدین تک پہنچ سکیں۔اس کے بعد مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے عجز وانکساری سے بارگاہ ایزدی میں اپنے ہاتھ پھیلادیے:
اے اللہ!یہ ہیں قریش ،یہ فخر وتکبر کے نشے میں سرشار ہوکر اس غرض سے آرہے ہیں کہ تیرے بندوں کو تیری اطاعت سے بازرکھیں اورتیرے رسول کوجھٹلائیں ۔پس اے اللہ!تو نے مجھ سے جووعدہ کیا ہے،اسے پورا فرما۔اے اللہ!میں تجھ سے تیرے عہد اور تیرے وعدے کاسوال کرتاہوں،اے اللہ!اگرآج یہ گروہ ہلاک ہوگیاتو قیامت تک تیری عبادت نہ ہوگی۔ ۱۹
دعاکے بعد آپ صلى الله عليه و سلم نے مٹھی بھر کنکر دشمن کی طرف پھینکے ہوئے فرمایا۔
'ان کے چہرے بگڑجائیں ۔' ۲۰
غزوہ بدر مسلمانوں کے لیے زندگی اورموت کا مرحلہ تھا۔وہ میدان کارزارسے بھاگنے والے تو تھے نہیں،مگر دشمن کے زبردست دباؤمیں جنگی حکمت عملی کے تحت ، تازہ کمک کے حصول کے لیے یادوبارہ منظم ہونے کی خاطر پیچھے ہٹنے سے منع نہیں کیاگیاتھا، تاہم بزدلی یا خوف شکست سے پسپائی اختیار کرنے سے روک دیا گیاتھا۔ ۲۱ وجہ یہ تھی کہ صحرائی مزاج میں زندگی کے تحفظ کےاعلی مقاصد کو قربان کردیا جاتا تھااورحقیقت یہی تھی کہ اس قسم کی فاش غلطی ہول ناک تباہی کا باعث بن سکتی تھی۔
جنگ کاآغاز ہواتوقریش کے صف اول کے جنگ جو عتبہ بن ربیعہ ،اس کا بھائی شیبہ اوراس کابیٹا ولیداپنی صف سے آگےبڑھے اورمسلمانوں کومبارزت کےلیے للکارا ۔ انصار میں سے تین مجاہد آگے بڑھے ،جنھیں دیکھتے ہی عتبہ چیخا۔'ہم مدینہ کے کسانوں اورچرواہوں سے نہیں لڑیں گے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم اس کی بات کو سمجھ گئے اورآپ صلى الله عليه و سلم نے علی ،حمزہ اورعبیدہ کو مقابلے کا حکم دیا۔حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اوراس کا سرقلم کردیا۔علی نے دوہی ضربوں سے ولید کو جہنم رسید کردیا۔عبید ہ ،جومعمر تھے ،شیبہ کی طرف بڑھے ۔ دونوں میں سخت مقابلہ ہورہاتھا کہ شیبہ کی ایک کاری وار نے عبیدہ کا گھٹنا کاٹ کر رکھ دیا ۔اتنے میں علی اورحمزہ شیبہ پر ٹوٹ پڑے ،اس کاکام تمام کردیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔ ۲۲
ابتدائے جنگ میں ہی مکی قوت کو یہ شدید صدمہ برداشت کرنا پڑا۔مسلمان ایمان کی پختگی اوراخلاص کےسبب اللہ کی نصرت سےفیض یاب ہوچکے تھے ، جس کی وجہ سے طاقت کے نشے میں مخمور قریش نہتے مسلمانوں کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔
مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے ۔انصار کے دو نوعمروں عوف ورمعاذ نے عبد اللہ بن مسعود سے مل کر ابوجہل کو واصل جہنم کردیا،جسے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے امت مسلمہ کافرعون قراردیاتھا۔۲۳ غرض ابوجہل ،ولید بن مغیرہ ،عتبہ بن ربیعہ، عاص بن سعید،امیہ بن خلف اورنوفل بن خویلد سمیت قریش کےاکثرسردار مارے گئے ۔جنگ سے قبل رسول اکرمصلى الله عليه و سلم نےکفارکی قتل گاہوں کی نشان دہی کردی تھی ۔ حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایاتھا کہ عتبہ یہاں قتل کیاجائے گا، ابوجہل یہاں ،امیہ بن خلف یہاں اور اسی طرح دیگر کفار۔ ۲۴
علاوہ ازیں ستر مشرکین قیدی بھی بنالیے گئے ۔اللہ نے مسلمانوں کو ان سے فدیہ لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔رسوک اکرم صلى الله عليه و سلم نے ان میں سے چند کو فدیہ وصول کرکے رہاکردیا۔بعض دوسروں ،جو پڑھنا لکھناجانتے تھے ،کی رہائی کےلیے یہ شرط عائد کردی کہ وہ ناخواندہ مسلمانوںکوپڑھنا لکھنا سکھادیں۔
قیدیوں سے اس قسم کاسلوک مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہوا۔ سزائے موت کے منتظر ان لوگوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اورفدیہ اداکردیا ۔ دوسرے یہ کہ مدینہ میں شرح خواندگی انتہائی پست تھی اوراشاعت اسلام کے لیے ان کا تعلیم یافتہ ہونا از حد ضروری تھا،تاکہ مشرکین کے مقابلے میں وہ اپنی تہذیبی برتری قائم کرسکیں ۔تیسری بات یہ کہ جو قیدی مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا رہے تھے ، انھیں اسلام کوزیادہ بہتر طور پرسمجھنے اورمسلمانوں سے قریبی روابط کا موقع مل گیااور اپنے خاندان کےساتھ وہ بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ۔چوتھا فائدہ یہ ہوا کہ وہ خاندان یااعزہ ،جوان قیدیوں کی زندگی مایوس ہوگئے تھے ، جب انھیں زندہ سلامت پایا توان کی اسلام دشمنی میں کمی واقع ہوگئی اوربعضوں کے دل اس غبار سے بالکل پاک ہوگئے ۔
غزوہ بدرمیں فیصلہ کن فتح نے اسلام کواکناف عرب میں ایک قوت کے طور پر متعارف کرایا ، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اسلام کے پرچم تلےجمع ہوگئے ۔
آخر کاردوہجری کے اوائل میں ابوسفیان کی قیادت میں ایک تجارتی قافلہ کم و بیش چالیس محافظوں کے ساتھ شام سے مکہ کے لیے محو سفر تھا۔جب مسلمانوں کی حدود سے گزرنے لگا تواس خدشے کے پیش نظر کہ مبادا مسلمان ان پر حملہ کردیں ، ابوسفیا ن نے مدداورکمک کے لیے ایک قاصد مکہ کی جانب دوڑادیا۔
اس خبر سے مکہ میں افراتفری پھیل گئی ،لہذاسرداران قریش نے نبی کریم صلى الله عليه و سلم کے خلاف بھرپور جنگ کا فیصلہ کرلیااور مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کو جڑسے اکھیڑ دینے کے ارادے سے ایک ہزار کا لاؤ لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوگئے ۔اس سے ان کا مستقبل میں بھی اپنے تجارتی راستوں کو یقینی طور پر محفوظ بنایا جاسکے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم اپنی منصبی ذمہ داریوں سے کماحقہ آگاہ تھے ،اس لیے انھیں معلوم
تھا کہ ایک معمولی سی فروگزاشت یاکوتاہی سے اشاعت اسلام کے عمل کو ناقابل تلافی نقصا ن پہنچ سکتاہے ۔کفار اچانک حملے کرکے مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کو نیست ونابود کرسکتے تھے ۔صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر یہ بات بھی مسلمانوں کے سیاسی ودفاعی برتری کے خلاف تھی کہ قریش مکہ کے قافلے اپنی فوجی قوت کے بل بوتےپرآزادانہ تجارت کے لیے آتے جاتےرہتے۔مسلمانوں کی یہ برتری ایک دفعہ کھوجاتی توان کی زندگی،مال واسباب حتی کہ عزت وناموس تک خطرات میں گھرجاتے ۔
تمام دست یاب وسائل کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کرکے حضور صلى الله عليه و سلم مدینہ سےروانہ ہوئے ۔اگرچہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم قریش سے فیصلہ کن معرکے کا ارادہ کرچکے تھے،تاہم مسلمانوں کی اکثریت قریش کے تجارتی قافلے پرغلبہ پانے کی آرزومندتھی ۔ صورت حال سے آگہی کے لیے حضور صلى الله عليه و سلمنے اپنے صحابہ کو جمع کیااور مطلع کیا کہ قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت مدینہ کے شمال میں ہے، جب کہ ان کالشکر جنوب کی طرف سے مدینہ کی طرف بڑھ رہاہے ۔آپ صلى الله عليه و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان دونوں قافلوں پر انھیں غلبہ عطا فرمائے گا۔ان یہ مسلمانوں پرمنحصر ہے کہ وہ تجارتی قافلے پر حملہ کرتے ہیں یاان کے مسلح لشکرپر۔۹ حضور صلى الله عليه و سلمکی منشاکو سمجھتے ہوئے مقداد بن عمر وانصاری سے عرض کیا:
'یارسول اللہ صلى الله عليه و سلم !جوحکم آپ صلى الله عليه و سلم کواللہ تعالی کی طرف سے ملاہے ،اس کے لیے تیارہوجائیے ۔ہم لوگ بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے ۔'[اگرلڑنا ہی ضرور ہے]توتم اورتمھارا خدا جاؤاورلڑو،ہم یہیں بیٹھے رہیں گے ۔' ۱۰ قسم ہے اس ذات کی ،جس نے آپ صلى الله عليه و سلم کو حق وصداقت کے ساتھ بھیجا ہے ،اگر آپ صلى الله عليه و سلم [اقصاے یمن کے ایک مقام ]برک الغمادتک جائیں گے توہم ساتھ ساتھ ہوں گے اور آپ صلى الله عليه و سلم کودرمیان لیتے ہوئے آگے پیچھے ،دائیں بائیں جنگ کریں گے ۔' ۱۱
غزوہ بدر تک حضور صلى الله عليه و سلم نے کسی فوجی دستے میں شمولیت کے لیے انصار کونہیں کہاتھا۔انصارکے لیے اسلام سے اپنی وفاداری کے عملی اظہارکایہ پہلاموقع تھا ۔ انصارکوبراہ راست مخاطب کیے بغیر حضور صلى الله عليه و سلم نے حاضرین کے رو بہ رو دو صورتیں پیش کیں۔سعد بن معاذ سمجھ گئے کہ حضور صلى الله عليه و سلم انصار کا نکتہ نظر معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔لہذاوہ اٹھے اورعرض کیا ۔ 'یارسول اللہ!کیاآپ صلى الله عليه و سلم کاروے سخن انصار کی طرف ہے ۔باخد امیں آپ صلى الله عليه و سلم کی تصدیق کرتاہوں اورشہادت دیتاہوں کہ آپ صلى الله عليه و سلمجو کچھ فرماتے ہیں ،وہ حق ہے۔ہم نے قبل ازیں سمع و طاعت کے معاہدات بھی آپ صلى الله عليه و سلم سے کیے ہیں،لہذا ہمارا عہد ہے کہ حضور جوارادہ فرمائیں گے ،اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا۔' ۱۲
یوں اتفاق رائے سے جنگ کافیصلہ ہوااوریہ منشائے خداوندی تھا
(انفال ۸:۷تا۸)
اور(اس وقت کویادکرو)جب اللہ تم سے وعدہ کرتاتھاکہ (ابوسفیان اورابوجہل کے)دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمھار ا(مسخر )ہوجائے گااورتم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بے (شان و)شوکت (یعنی بے ہتھیار )ہے،وہ تمھارے ہاتھ آجائے اوراللہ چاہتا تھاکہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے او رکافروں کی جڑ کاٹ (کر پھینک )دے ،تاکہ سچ کو سچ اورجھوٹ کو جھوٹ کردے ،گومشرک ناخوش ہی ہوں۔
کفار مکہ کا مسلح لشکر ایک ہزار جنگ جوؤں مشتمل تھا، جس میں چھ سوزرہ پوش اور دوسوسوار شامل تھے ۔لشکرکے ساتھ ساتھ گائک اوررقاصائیں بھی تھیں۔راستے میں جہاں کہیں پڑاؤڈالاجاتا ، محفل رقص وسرودکااہتمام کیاجاتا۔مقصد یہ تھا کہ دیگر قبائل اورآس پاس کے علاقوں پران کی قابل تسخیر فوجی برتری اورعددی قوت کی دھاک بیٹھ جائے ۔۱۳ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس لشکر کے پیش نظر کوئی اعلی جنگی مقاصد نہ تھے ۔
دوسری جانب مشرکین کے اس لشکر کاسامنا کرنے کے لیے کم وبیش ۳۱۳ مسلمان روانہ ہورہے تھے۔اسلامی لشکر میں۸۶مہاجرین اورباقی انصارشامل تھے۔ وسائل کے فقدان کایہ عالم تھاکہ ان کے پاس دو تین گھوڑے اورستر اونٹ تھے ، جس کی وجہ سے تین تین ،چارچارآدمی باری باری ان پر سواری کررہے تھے ۔خود حضورصلى الله عليه و سلم دو صحابہ کے ساتھ ایک سواری میں شامل ہوئے آپ صلى الله عليه و سلم کوسوار ہونے کی پیش کش کی تو آپ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا۔ 'تم لوگ طاقت میں مجھ سے بڑھ کر نہیں ہو۔ثواب کی مجھے بھی تمھاری ہی طرح ضرورت ہے۔' ۱۴
مجاہدین اپنی زندگیاںاسلام کے لیے وقف کرچکے تھے ۔اللہ تعالی کی طرف سے پہلے ہی فتح وظفر کاوعدہ ہوچکا تھااوراب اس کی ایفا کاوقت آن پہنچا تھا ۔ایک لمحہ کی اونگھ میں آپ صلى الله عليه و سلم کونصر ت کاپیغام موصول ہوگیا:
(انفال۸:۴۴)
اوراُس وقت جب تم ایک دوسرے کے مقابل ہوئے توکافروں کو تمھاری نظروں میں تھوڑا کرکےدکھاتاتھا اورتم کوان کی نگاہوں میں تھوڑاکرکے دکھاتاتھا،تاکہ اللہ کوجوکام کرنامنظور تھا، اُسے کرڈالے۔
آخرکاردونوں لشکرمقابلے کے لیے صف آرا ہوگئے ،مشرکین کی تعداد مسلمانوں سے تین گناتھی۔مزیدبرآں مسلمان جنگی سازوسامان کے اعتبار سے بھی ان سے پیچھےتھے ،تاہم ان کی جنگ اعلی مقاصد کے حصول ،دین اسلام کی سربلندی ،اخلاقی اقدار کے فروغ اورانصاف کی ترویج کے لیے تھی اوروہ اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ بھی تھے ۔یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی جانوں کا نذرانہ لےکر حاضر ہوگئے تھے ۔اسلامی لشکر نے دشمن کے پہنچنے سے پہلے میدان جنگ میں میں خیمے نصب کرلئے اورچشموں پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔پھریہ کہ جنگ سے پہلے آنے والا طوفان اورموسلادھاربارش مسلمانوں کے لیے سودمندثابت ہوئی۔مسلمانوں نے ایک حوض بناکرساراپانی اس میں جمع کر لی بارش کی برکت سے زمین ہموار ہوگئی اورریت سخت ہوگئی ، جس سے مسلمانوں کو قدم ٹکانے میں مددملی ۔دوسری طرف ،جہاں قریش نے پڑاؤڈالا تھاا، زمین کیچڑ میں تبدیل ہوگئی ۔مسلمانوں پر رحمتوں کے نزول کے علاوہ نیند کی چادر اوڑھادی گئی اوران کے دلوں کو مضبوط کردیاگیا۔ ۱۵
میدان کے بالائی حصے میں،جہاں سے تمام میدان جنگ پر نظر پڑتی تھی ،حضور صلى الله عليه و سلم نے صفیں درست کرنے کا حکم دیا۔لشکر کے تین حصے کیے ؛ایک کو میدان کے مرکز میں متعین کیا، جب کہ دوسرے دونوں دستوں کو عقب میں ۔مرکزی دستے میں مہاجرین وانصارکے سرکردہ سردارشامل تھے،جو وفاداری میں سب سے بڑھ کرتھے حضور صلى الله عليه و سلم کاعلم مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں تھا۔ان کا تعلق مکے کے ایک مال دارخاندان سے تھااور انھوں نے نوجوانی میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔ان کے حسن و رعنائی کی بڑی شہرت تھی۔[زمانہ جاہلیت میں جب]وہ باہر نکلتے توریشم وکم خواب میں ملبوس اس وجیہہ نوجوان کے دیدار کے لیے مکہ کی لڑکیاں گھروں کی کھڑکیوں سے جھانکا کرتی تھیں ،تاہم قبول اسلام کےبعد ان کا شمار حضور صلى الله عليه و سلم کے جاں نثاروں میں ہونے لگا۔ان کے پاس جوکچھ تھا،وہ سب راہ خدا میں قربان کردیااوربالآخر شہادت کے مرتبے پرفائز ہوگئے ۔غزوہ اُحد میں دوسری بار انھیں حضور صلى الله عليه و سلم کاعلم بردار ہونے کا شرف حاصل ہوا۔دوران جنگ جب ان کا دایاں بازو کٹ گیا توانھوں نے جھنڈا بائیں بازوسے تھام لیا ،جب وہ بھی قلم ہوگیا تواسے سینے سے چمٹا لیا اورآخرکار [عمر وبن قمیہ نے]انھیں شہید کردیا۔ ۱۶
دوسرے دودستوں کی قیادت علی اور سعد بن معاذ کررہے تھے ۔علی کی شجاعت اوروفاداری مشہورہے ۔جس وقت حضور صلى الله عليه و سلم نے اپنے خاندان کو اکٹھا کرکے اسلام کی طرف بلایا اورپوچھا کہ تم میں سے کون ہے ،جومیری مدد کرے ۔اس مو قع پر نوسالہ علی نے جواب دیاتھاکہ میں آپ صلى الله عليه و سلم کی مددکروں گا۔۱۷ پھر ہجرت کی رات علی ہی آپ صلى الله عليه و سلم کے بستر پر آرام فرماہوئے ،تاکہ حضور صلى الله عليه و سلم بہ حفاظت مکہ سے نکل سکیں۔۱۸ حضور صلى الله عليه و سلم کے دروازے پر گھات لگا کر بیٹھنے والے سمجھے کہ رسول اکرم صلى الله عليه و سلم سورہے ہیں۔وہ وقت صبح کے منتظرتھے ،تاہم جب انھیں حقیقت حال کا علم ہوا،اس وقت تک حضور صلى الله عليه و سلم مکہ سے باہر غارثور تک پہنچ چکے تھے۔علی نے اپنا تن من دھن سبھی کچھ راہ خدا میں وقف کردیاتھا۔
ضروری اقدام اٹھاتے ہوئے جنگی تیاریاں مکمل کرلی گئیں اورتمام وسائل کو مجتمعکرکے باصلاحیت صحابہ کو مختلف دستوں کی قیادت سونپی گئی ۔میدان کے بالائی حصے میں صف بندی کرکے حضور صلى الله عليه و سلم نے اپناخیمہ وہاں نصب کیا،جہاں سے میدان جنگ کا پورا نقشہ آپ صلى الله عليه و سلم کے سامنے ہواورجہاں سے آپ صلى الله عليه و سلم کے احکاماتبہ سہولت مجاہدین تک پہنچ سکیں۔اس کے بعد مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے آپ صلى الله عليه و سلم نے عجز وانکساری سے بارگاہ ایزدی میں اپنے ہاتھ پھیلادیے:
اے اللہ!یہ ہیں قریش ،یہ فخر وتکبر کے نشے میں سرشار ہوکر اس غرض سے آرہے ہیں کہ تیرے بندوں کو تیری اطاعت سے بازرکھیں اورتیرے رسول کوجھٹلائیں ۔پس اے اللہ!تو نے مجھ سے جووعدہ کیا ہے،اسے پورا فرما۔اے اللہ!میں تجھ سے تیرے عہد اور تیرے وعدے کاسوال کرتاہوں،اے اللہ!اگرآج یہ گروہ ہلاک ہوگیاتو قیامت تک تیری عبادت نہ ہوگی۔ ۱۹
دعاکے بعد آپ صلى الله عليه و سلم نے مٹھی بھر کنکر دشمن کی طرف پھینکے ہوئے فرمایا۔
'ان کے چہرے بگڑجائیں ۔' ۲۰
غزوہ بدر مسلمانوں کے لیے زندگی اورموت کا مرحلہ تھا۔وہ میدان کارزارسے بھاگنے والے تو تھے نہیں،مگر دشمن کے زبردست دباؤمیں جنگی حکمت عملی کے تحت ، تازہ کمک کے حصول کے لیے یادوبارہ منظم ہونے کی خاطر پیچھے ہٹنے سے منع نہیں کیاگیاتھا، تاہم بزدلی یا خوف شکست سے پسپائی اختیار کرنے سے روک دیا گیاتھا۔ ۲۱ وجہ یہ تھی کہ صحرائی مزاج میں زندگی کے تحفظ کےاعلی مقاصد کو قربان کردیا جاتا تھااورحقیقت یہی تھی کہ اس قسم کی فاش غلطی ہول ناک تباہی کا باعث بن سکتی تھی۔
جنگ کاآغاز ہواتوقریش کے صف اول کے جنگ جو عتبہ بن ربیعہ ،اس کا بھائی شیبہ اوراس کابیٹا ولیداپنی صف سے آگےبڑھے اورمسلمانوں کومبارزت کےلیے للکارا ۔ انصار میں سے تین مجاہد آگے بڑھے ،جنھیں دیکھتے ہی عتبہ چیخا۔'ہم مدینہ کے کسانوں اورچرواہوں سے نہیں لڑیں گے ۔
حضور صلى الله عليه و سلم اس کی بات کو سمجھ گئے اورآپ صلى الله عليه و سلم نے علی ،حمزہ اورعبیدہ کو مقابلے کا حکم دیا۔حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اوراس کا سرقلم کردیا۔علی نے دوہی ضربوں سے ولید کو جہنم رسید کردیا۔عبید ہ ،جومعمر تھے ،شیبہ کی طرف بڑھے ۔ دونوں میں سخت مقابلہ ہورہاتھا کہ شیبہ کی ایک کاری وار نے عبیدہ کا گھٹنا کاٹ کر رکھ دیا ۔اتنے میں علی اورحمزہ شیبہ پر ٹوٹ پڑے ،اس کاکام تمام کردیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔ ۲۲
ابتدائے جنگ میں ہی مکی قوت کو یہ شدید صدمہ برداشت کرنا پڑا۔مسلمان ایمان کی پختگی اوراخلاص کےسبب اللہ کی نصرت سےفیض یاب ہوچکے تھے ، جس کی وجہ سے طاقت کے نشے میں مخمور قریش نہتے مسلمانوں کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔
مشرکین کے ستر آدمی مارے گئے ۔انصار کے دو نوعمروں عوف ورمعاذ نے عبد اللہ بن مسعود سے مل کر ابوجہل کو واصل جہنم کردیا،جسے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے امت مسلمہ کافرعون قراردیاتھا۔۲۳ غرض ابوجہل ،ولید بن مغیرہ ،عتبہ بن ربیعہ، عاص بن سعید،امیہ بن خلف اورنوفل بن خویلد سمیت قریش کےاکثرسردار مارے گئے ۔جنگ سے قبل رسول اکرمصلى الله عليه و سلم نےکفارکی قتل گاہوں کی نشان دہی کردی تھی ۔ حضور صلى الله عليه و سلم نے فرمایاتھا کہ عتبہ یہاں قتل کیاجائے گا، ابوجہل یہاں ،امیہ بن خلف یہاں اور اسی طرح دیگر کفار۔ ۲۴
علاوہ ازیں ستر مشرکین قیدی بھی بنالیے گئے ۔اللہ نے مسلمانوں کو ان سے فدیہ لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔رسوک اکرم صلى الله عليه و سلم نے ان میں سے چند کو فدیہ وصول کرکے رہاکردیا۔بعض دوسروں ،جو پڑھنا لکھناجانتے تھے ،کی رہائی کےلیے یہ شرط عائد کردی کہ وہ ناخواندہ مسلمانوںکوپڑھنا لکھنا سکھادیں۔
قیدیوں سے اس قسم کاسلوک مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہوا۔ سزائے موت کے منتظر ان لوگوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اورفدیہ اداکردیا ۔ دوسرے یہ کہ مدینہ میں شرح خواندگی انتہائی پست تھی اوراشاعت اسلام کے لیے ان کا تعلیم یافتہ ہونا از حد ضروری تھا،تاکہ مشرکین کے مقابلے میں وہ اپنی تہذیبی برتری قائم کرسکیں ۔تیسری بات یہ کہ جو قیدی مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا رہے تھے ، انھیں اسلام کوزیادہ بہتر طور پرسمجھنے اورمسلمانوں سے قریبی روابط کا موقع مل گیااور اپنے خاندان کےساتھ وہ بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگے ۔چوتھا فائدہ یہ ہوا کہ وہ خاندان یااعزہ ،جوان قیدیوں کی زندگی مایوس ہوگئے تھے ، جب انھیں زندہ سلامت پایا توان کی اسلام دشمنی میں کمی واقع ہوگئی اوربعضوں کے دل اس غبار سے بالکل پاک ہوگئے ۔
غزوہ بدرمیں فیصلہ کن فتح نے اسلام کواکناف عرب میں ایک قوت کے طور پر متعارف کرایا ، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اسلام کے پرچم تلےجمع ہوگئے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔