پہلا حصہ: حضرت ابراہیم کی اپنے والد کو دعوت (مریم ۔ ۱۹: ۴۸-۴۱)
ترجمہ: اور اس کتاب میں سیدنا ابراہیم کا قصہ بیان کیجئے بلاشبہ وہ راست باز انسان اور ایک نبی تھے۔جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا:''ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں اور نہ تمہارے کسی کام آسکتی ہیں۔ابا جان! میرے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ لہذا میرے پیچھے چلئے میں آپ کو سیدھی راہ بتاؤں گا۔ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کیجئے وہ تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ابا جان! مجھے خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو سزا ملے گی اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں گے۔
باپ نے جواب دیا: ''ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہوگیا ہے؟ اگر تو (اس کام سے) باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور (بہتر یہ ہے کہ) تو ایک طویل مدت کے لئے (میری آنکھوں سے) دور چلا جا''۔ابراہیم نے جواب دیا: ''ابا جان! آپ پر سلام ہو۔ میں اپنے پروردگار سے آپ کے لئے بخشش کی دعا کروں گا۔ بلاشبہ میرا پروردگار مجھ پر مہربان ہے۔میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑے جارہا ہوں اور ان کو بھی جنہیں تم لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہو اور میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا مجھے امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہ رہوں گا''۔
دوسرا حصہ : حضرت ابراہیم کا بت شکنی کا واقعہ(الانبیاء۲۱:۷۱-۵۱)
ترجمہ: اور اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اس (کے حال) سے خوف واقف تھے۔جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے آگے تم بندگی کے لئے بیٹھے رہتے ہو؟. وہ کہنے لگے: ''ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ان کی عبادت کرتے ہی پایا ہے''(حضرت) ابراہیم نے کہا: پھر تو تم بھی اور تمہارے آباء و اجداد بھی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو''
وہ کہنے لگے'':کیا تو ہمارے پاس کوئی سچی بات لایا ہے یا ویسے ہی دل لگی کر رہا ہے''اس نے جواب دیا '':دل لگی نہیں بلکہ سچی بات یہی ہے کہ تمہارا پروردگار وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انھیں پیدا کیا اور میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں۔اور اللہ کی قسم! میں تمہارے چلے جانے کے بعد تمہارے تینوں سے ضرور دو دو ہاتھ کروں گا۔چنانچہ بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو ابراہیم نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ وہ اس (بڑے بت) کی طرف رجوع کریں۔وہ کہنے لگے: ''ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کردیا؟ بلاشبہ وہ بڑا ظالم ہے۔(بعض) لوگ کہنے لگے'':ہم نے ایک نوجوان کو ان بتوں کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ہے۔وہ کہنے لگے'':پھر اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ دیکھ لیں (کہ ہم اس سے کیا کرتے ہیں)۔ (جب ابراہیم آگئے تو) انہوں نے پوچھا: ''ابراہیم! ہمارے معبودوں سے یہ کارستانی تم نے کی ہے؟۔ابراہیم نے جواب دیا: نہیں بلکہ ان پر بڑے (بت) نے ہی یہ کچھ کیا ہوگا۔ لہذا انھیں (ٹوٹے ہوئے بتوں) سے ہی پوچھ لو۔ اگر بولتے ہوں؟''۔پھر انہوں نے اپنے دل میں سوچا تو (دل میں) کہنے لگے: ظالم تو تم خود ہو۔پھر لا جواب ہو کر شرم کے مارے سرنگوں ہوگئے۔ اور کہنے لگے (یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ یہ (بت) بولتے نہیں۔(اس پر) ابراہیم نے کہا: پھر کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں۔تف ہے تم پر اور ان پر بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ کیا تم ذرا بھی نہیں سوچتے؟''۔وہ بولے: ''اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو ابراہیم کو جلا ڈالو اور (اس طرح) اپنے معبودوں کی امداد کرو''۔ہم نے آگ کو حکم دیا: ''اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا''۔وہ تو چاہتے تھے کہ ابراہیم کو دکھ پہنچائیں مگر ہم نے انھیں ہی امتحان میں ڈال دیا۔اور ہم ابراہیم اور لوط کو ان سے بچا کر اس سرزمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں نے اہل عالم کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔
تفصیل و وضاحت
حضرت ابراہیم کی دعوت
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر ١٧٥ سال تھی۔ آپ کی بعثت کا زمانہ دو ہزار اور اکیس سو قبل مسیح کے درمیان ہے ۔
نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم کی بعثت سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے مندروں میں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ مندروں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف ہوتیں اور ان کے سرمایہ کو تجارت اور صنعت پر بھی لگایا جاتا اور یہ سب کام مندروں کے پجاریوں کی معرفت طے پاتے تھے۔ اس طرح کہ یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ملک کے تمدن، معیشت اور سیاست پر بہت حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔ سیدنا ابراہیم کا باپ ایسے ہی کسی بڑے مندر کا شاہی مہنت تھا۔ نذرانے وصول کرنے کے علاوہ بت گری اور بت فروشی کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ کھانے پینے کی فراغت کے علاوہ معاشرہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آپ نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں اور فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے، علاوہ ازیں ان لوگوں نے اپنے شہروں کے نام بھی انہی بتوں کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو بچپن میں ہی فطرت سلیمہ عطا ہوئی تھی۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے ان کی طبیعت بے زار رہتی تھی۔
آپ کی قوم بت پرست اور نجوم پرست تھی۔ آپ کا باپ آزر نمرود شاہ عراق کی طرف سے شاہی بت خانہ کا مہنت اور منتظم تھا وہ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر سے اصلاح دعوت کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے جو یہ مندروں میں بت ٹکا رکھے ہیں اور انہیں اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو یہ تو انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے۔
جب آپ نے اپنے باپ ہی کو نہایت نرم الفاظ میں تبلیغ کرنا شروع کی تو اس نے بادشاہ وقت نمرود سے سیدنا ابراہیم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کر لیا۔ سیدنا ابراہیم نے نمرود پر حجت قائم کر کے اسے مناظرہ میں لاجواب کر دیا ۔
اگلے مرحلے میں آپ نے قوم کو دعوت دینےکا سلسلہ شروع کیا۔چنانچہ آپ نے قوم کو متوجہ کرنے اور انہیں دعوت دینے کی غرض سے ایک حکیمانہ منصوبہ بنایا۔ ایک دن جب سب لوگ محفل جمائے بیٹھے تھے تو آپ نے لوگوں کو ایک چمکدار ستارہ کی جانب متوجہ کیا اور کہا یہ میرا رب ہے ۔ جب قوم خوش ہوگئی کہ ہمارے معبود کو اس نقاد نے مان لیا تو آپ نے اس ستارے کے غروب ہونے پر فرمادیا کہ جو چیز میرے پاس موجود بھی نہیں رہ سکتی وہ میری یا کسی دوسرے کی مشکلات کو کیا دور کرے گی۔ اسی طرح کسی روز پھر چاند کو دیکھا تو اس کے رب ہونے کے بارے میں قوم کو مطلع کیا تاکہ وہ متوجہ ہوجائیں۔ لیکن اس کے غروب ہونے پر بھی یہی تبصرہ کرکے آپ نے قوم کے شرک پر تنقید کرڈالی ۔ پھر سورج کو بڑا ہونے کی بنیاد پر رب قرار دے کر قوم کی توجہ حاصل کی۔جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے قوم پر حجت تمام کردی کہ جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بے بس ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتی ہیں خدا تو وہ ہو سکتا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
آخری مرحلے میں آپ نے قوم کے بتوں کو توڑ ڈالا تاکہ ان کے مجبور محض ہونے کا یقین لوگوں کو دلاسکیں۔ لیکن قوم کے لوگ ماننے کی بجائے بپھر گئے اور آپ کو آگ میں ڈال دیا جس سے اللہ نے آپ کو بچالیا اور آپ نے شام کی جانب ہجرت کی۔
حضرت ابراہیم کی ہجرت
آخر آپ ہجرت کر کے سیدنا لوط کے ہمراہ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر وہاں سے مصر کی طرف ہجرت کی تو شاہی کارندے آپ کی بیوی سارہ کو پکڑ کر لے گئے جس سے بادشاہ کو کافی تکلیف پہنچی۔ بالآخر اس نے ہاجرہ کو ہمراہ کر دیا۔ یہاں آپ نے حضرت ہاجرہ سے شادی کی۔ حضرت ہاجرہ کے بارے یہ بات مشہور ہے کہ آپ ایک لونڈی تھیں ۔ مولانا عبدالستار غوری نے اس رائے کو چلینج کیا ہے اور ان کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ ہاجرہ سارہ کی باندی یا کنیز تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک شہزادی تھیں اور اس مصری بادشاہ کی بیٹی تھیں، جس نے انھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کی خدمت کے ليے پیش کیا تھا تاکہ وہ ایک پاکیزہ ماحول میں پرورش پائیں، یہاں بائبل کے مؤلفین نے جان بوجھ کر لونڈی یا باندی کے طورپر پیش کیا ہے، مزید غور اور تحقیق کا متقاضی ہے۔ (کتاب اکلوتا فرزند ذبیح: اسحق یا اسمٰعیل۔ ص٣٣)
حضرت اسماعیل کی پیدائش و قربانی
کافی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد نہ تھی لہذا اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما جو میرے گھر کی رونق بنے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس بیٹے کی بشارت دی اس کی نمایاں صفت حلیم تھی۔
حضرت اسماعیل کی پیدائش حضرت حاجرہ سے ہوئی۔ اللہ کے حکم سے آپ نے دونوں کو مکہ کی وادی میں بسا دیا تاکہ ایک ایسی قوم کی داغ بیل پڑ سکے جس میں آخری پیغمبر کی بعثت ہو۔یہاں آپ اکثر آتے جاتے رہتے اور حضرت اسماعیل اور انکی والدہ کی خبر گیری کرتے رہتے تھے۔
سیدنا اسمٰعیل جب اس عمر کو پہنچے جب وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاسکتے تھے تو سیدنا ابراہیم کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ کو تین راتیں مسلسل خواب آتا رہا جس میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ اسی بیٹے کو جسے آپ نے اللہ سے دعا کرکے لیا تھا اور جو آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بن رہا تھا، ذبح کررہے ہیں چنانچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔
چنانچہ سیدنا ابراہیم نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔ آپ نے یہ رائے اس لئے دریافت نہیں کی تھی کہ اگر بیٹا اس بات پر آمادہ نہ ہو یا وہ انکار کردے تو آپ اللہ کے اس کے حکم کی تعمیل سے باز رہیں گے بلکہ اس لئے پوچھا تھا کہ آیا یہ فی الواقع صالح بیٹا ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ آپ نے جو دعا کی تھی وہ صالح بیٹے کے لئے کی تھی۔
سیدنا اسمٰعیل اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہوگئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے۔ کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا۔ بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچون وچرا تسلیم کرکے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کر لی اور اپنے پروردگار کی بھی۔
سیدنا ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل اس لئے لٹایا کہ کہیں پدرانہ شفقت تعمیل حکم الٰہی میں آڑے نہ آجائے۔ اور چھری چلاتے وقت ہاتھ میں لغزش نہ واقع ہو۔ منہ کے بل لٹانے سے نہ بیٹے کا چہرہ نظر آئے گا نہ پدرانہ جذبات برانگیختہ ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ سیدنا اسمٰعیل نے اسی مصلحت کے پیش نظر خود اپنے والد محترم کو ایسا مشورہ دیا۔
جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بے نظیر مثال قائم کر دی تو اس وقت رحمت الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً سیدنا ابراہیم پر وحی ہوئی کہ بس بس اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہوچکا جس میں تم پوری طرح کامیاب اترے ہو۔ ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔ واضح رہے کہ سیدنا ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ ''میں ذبح کر رہا ہوں'' یہ نہیں دیکھا تھا کہ ''میں نے ذبح کردیا ہے'' اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کر دینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔
یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کر دیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم کوآگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور درجات بھی بلند کئے۔
حضرت ابراہیم کی امامت
اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام دنیا کی امامت دی جو ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
١۔ آپ ایک بت گر اور بت فروش کے گھر پیدا ہوئے۔ باپ چاہتا تھا کہ بیٹا اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن آپ علیہ السلام نے الٹا احسن انداز میں سمجھانا شروع کر دیا۔ جب باپ آپ علیہ السلام کی طرف سے مایوس ہو گیا تو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دی۔ آپ علیہ السلام نے حق کی خاطر جلاوطنی کی صعوبتیں قبول کیں۔
٢۔ قومی میلہ کے موقع پر بتوں کو پاش پاش کیا جسکے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بخوشی اس میں کودنا منظور کیا۔
٣۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہا السلام اور دودھ پیتے بچے کو اللہ کے حکم کے مطابق ایک بے آب و گیاہ میدان میں جا چھوڑا۔ جہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی آبادی کے آثار نظر آتے تھے۔
۔ بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے اسماعیل علیہ السلام جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کر دینے کا حکم ہوا تو آپ بے دریغ اور بلاتامل اس پر آمادہ ہو گئے۔ غرض آپ کی قربانیوں اور آزمائشوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود یہ سرٹیفکیٹ عطا کر دیا کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی کئی باتوں سے آزمائش کی تو وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان امتحانوں کے نتیجہ میں آپ کو دنیا جہان کا امام بنا دیا، اور آئندہ قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت کو آپ علیہ السلام ہی کی اولاد سے منسلک کر دیا اور دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب اپنے مذہب کی آپ علیہ السلام کی طرف نسبت کرنا باعث عزت و افتخار سمجھتے ہیں۔
ترجمہ: اور اس کتاب میں سیدنا ابراہیم کا قصہ بیان کیجئے بلاشبہ وہ راست باز انسان اور ایک نبی تھے۔جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا:''ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں اور نہ تمہارے کسی کام آسکتی ہیں۔ابا جان! میرے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ لہذا میرے پیچھے چلئے میں آپ کو سیدھی راہ بتاؤں گا۔ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کیجئے وہ تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ابا جان! مجھے خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کو سزا ملے گی اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں گے۔
باپ نے جواب دیا: ''ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہوگیا ہے؟ اگر تو (اس کام سے) باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور (بہتر یہ ہے کہ) تو ایک طویل مدت کے لئے (میری آنکھوں سے) دور چلا جا''۔ابراہیم نے جواب دیا: ''ابا جان! آپ پر سلام ہو۔ میں اپنے پروردگار سے آپ کے لئے بخشش کی دعا کروں گا۔ بلاشبہ میرا پروردگار مجھ پر مہربان ہے۔میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑے جارہا ہوں اور ان کو بھی جنہیں تم لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہو اور میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا مجھے امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہ رہوں گا''۔
دوسرا حصہ : حضرت ابراہیم کا بت شکنی کا واقعہ(الانبیاء۲۱:۷۱-۵۱)
ترجمہ: اور اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اس (کے حال) سے خوف واقف تھے۔جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ: یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے آگے تم بندگی کے لئے بیٹھے رہتے ہو؟. وہ کہنے لگے: ''ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ان کی عبادت کرتے ہی پایا ہے''(حضرت) ابراہیم نے کہا: پھر تو تم بھی اور تمہارے آباء و اجداد بھی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو''
وہ کہنے لگے'':کیا تو ہمارے پاس کوئی سچی بات لایا ہے یا ویسے ہی دل لگی کر رہا ہے''اس نے جواب دیا '':دل لگی نہیں بلکہ سچی بات یہی ہے کہ تمہارا پروردگار وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے جس نے انھیں پیدا کیا اور میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں۔اور اللہ کی قسم! میں تمہارے چلے جانے کے بعد تمہارے تینوں سے ضرور دو دو ہاتھ کروں گا۔چنانچہ بڑے بت کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو ابراہیم نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ وہ اس (بڑے بت) کی طرف رجوع کریں۔وہ کہنے لگے: ''ہمارے معبودوں کا یہ حال کس نے کردیا؟ بلاشبہ وہ بڑا ظالم ہے۔(بعض) لوگ کہنے لگے'':ہم نے ایک نوجوان کو ان بتوں کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ہے۔وہ کہنے لگے'':پھر اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ دیکھ لیں (کہ ہم اس سے کیا کرتے ہیں)۔ (جب ابراہیم آگئے تو) انہوں نے پوچھا: ''ابراہیم! ہمارے معبودوں سے یہ کارستانی تم نے کی ہے؟۔ابراہیم نے جواب دیا: نہیں بلکہ ان پر بڑے (بت) نے ہی یہ کچھ کیا ہوگا۔ لہذا انھیں (ٹوٹے ہوئے بتوں) سے ہی پوچھ لو۔ اگر بولتے ہوں؟''۔پھر انہوں نے اپنے دل میں سوچا تو (دل میں) کہنے لگے: ظالم تو تم خود ہو۔پھر لا جواب ہو کر شرم کے مارے سرنگوں ہوگئے۔ اور کہنے لگے (یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ یہ (بت) بولتے نہیں۔(اس پر) ابراہیم نے کہا: پھر کیا تم ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ فائدہ دے سکیں اور نہ نقصان پہنچا سکیں۔تف ہے تم پر اور ان پر بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ کیا تم ذرا بھی نہیں سوچتے؟''۔وہ بولے: ''اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو ابراہیم کو جلا ڈالو اور (اس طرح) اپنے معبودوں کی امداد کرو''۔ہم نے آگ کو حکم دیا: ''اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا''۔وہ تو چاہتے تھے کہ ابراہیم کو دکھ پہنچائیں مگر ہم نے انھیں ہی امتحان میں ڈال دیا۔اور ہم ابراہیم اور لوط کو ان سے بچا کر اس سرزمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں نے اہل عالم کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔
تفصیل و وضاحت
حضرت ابراہیم کی دعوت
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عمر ١٧٥ سال تھی۔ آپ کی بعثت کا زمانہ دو ہزار اور اکیس سو قبل مسیح کے درمیان ہے ۔
نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم کی بعثت سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے مندروں میں نذر و نیاز پیش کرتے تھے۔ مندروں کے نام پر بڑی بڑی جاگیریں وقف ہوتیں اور ان کے سرمایہ کو تجارت اور صنعت پر بھی لگایا جاتا اور یہ سب کام مندروں کے پجاریوں کی معرفت طے پاتے تھے۔ اس طرح کہ یہ جاگیر دار اور سرمایہ دار ملک کے تمدن، معیشت اور سیاست پر بہت حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔ سیدنا ابراہیم کا باپ ایسے ہی کسی بڑے مندر کا شاہی مہنت تھا۔ نذرانے وصول کرنے کے علاوہ بت گری اور بت فروشی کا کاروبار بھی کرتا تھا۔ کھانے پینے کی فراغت کے علاوہ معاشرہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ آپ نے ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ فلاں فلاں قسم کے بت فلاں ستارہ کے ہیں اور فلاں بت چاند کے اور فلاں سورج کے، علاوہ ازیں ان لوگوں نے اپنے شہروں کے نام بھی انہی بتوں کے نام پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ کو بچپن میں ہی فطرت سلیمہ عطا ہوئی تھی۔ معاشرہ کی ان حرکات سے اور گھر کے ایسے ماحول سے ان کی طبیعت بے زار رہتی تھی۔
آپ کی قوم بت پرست اور نجوم پرست تھی۔ آپ کا باپ آزر نمرود شاہ عراق کی طرف سے شاہی بت خانہ کا مہنت اور منتظم تھا وہ بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر سے اصلاح دعوت کا آغاز کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ نے اور آپ کی قوم نے جو یہ مندروں میں بت ٹکا رکھے ہیں اور انہیں اپنا حاجت روا سمجھ رہے ہو یہ تو انتہائی غلط روش اور سراسر گمراہی ہے۔
جب آپ نے اپنے باپ ہی کو نہایت نرم الفاظ میں تبلیغ کرنا شروع کی تو اس نے بادشاہ وقت نمرود سے سیدنا ابراہیم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو دربار میں طلب کر لیا۔ سیدنا ابراہیم نے نمرود پر حجت قائم کر کے اسے مناظرہ میں لاجواب کر دیا ۔
اگلے مرحلے میں آپ نے قوم کو دعوت دینےکا سلسلہ شروع کیا۔چنانچہ آپ نے قوم کو متوجہ کرنے اور انہیں دعوت دینے کی غرض سے ایک حکیمانہ منصوبہ بنایا۔ ایک دن جب سب لوگ محفل جمائے بیٹھے تھے تو آپ نے لوگوں کو ایک چمکدار ستارہ کی جانب متوجہ کیا اور کہا یہ میرا رب ہے ۔ جب قوم خوش ہوگئی کہ ہمارے معبود کو اس نقاد نے مان لیا تو آپ نے اس ستارے کے غروب ہونے پر فرمادیا کہ جو چیز میرے پاس موجود بھی نہیں رہ سکتی وہ میری یا کسی دوسرے کی مشکلات کو کیا دور کرے گی۔ اسی طرح کسی روز پھر چاند کو دیکھا تو اس کے رب ہونے کے بارے میں قوم کو مطلع کیا تاکہ وہ متوجہ ہوجائیں۔ لیکن اس کے غروب ہونے پر بھی یہی تبصرہ کرکے آپ نے قوم کے شرک پر تنقید کرڈالی ۔ پھر سورج کو بڑا ہونے کی بنیاد پر رب قرار دے کر قوم کی توجہ حاصل کی۔جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے قوم پر حجت تمام کردی کہ جو چیزیں نظم و ضبط کی اس قدر پابند اور اپنے اپنے کام پر مجبور و بے بس ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتی ہیں خدا تو وہ ہو سکتا ہے جس نے ان تمام چیزوں کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
آخری مرحلے میں آپ نے قوم کے بتوں کو توڑ ڈالا تاکہ ان کے مجبور محض ہونے کا یقین لوگوں کو دلاسکیں۔ لیکن قوم کے لوگ ماننے کی بجائے بپھر گئے اور آپ کو آگ میں ڈال دیا جس سے اللہ نے آپ کو بچالیا اور آپ نے شام کی جانب ہجرت کی۔
حضرت ابراہیم کی ہجرت
آخر آپ ہجرت کر کے سیدنا لوط کے ہمراہ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر وہاں سے مصر کی طرف ہجرت کی تو شاہی کارندے آپ کی بیوی سارہ کو پکڑ کر لے گئے جس سے بادشاہ کو کافی تکلیف پہنچی۔ بالآخر اس نے ہاجرہ کو ہمراہ کر دیا۔ یہاں آپ نے حضرت ہاجرہ سے شادی کی۔ حضرت ہاجرہ کے بارے یہ بات مشہور ہے کہ آپ ایک لونڈی تھیں ۔ مولانا عبدالستار غوری نے اس رائے کو چلینج کیا ہے اور ان کے مطابق یہ بات درست نہیں ہے کہ ہاجرہ سارہ کی باندی یا کنیز تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک شہزادی تھیں اور اس مصری بادشاہ کی بیٹی تھیں، جس نے انھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کی خدمت کے ليے پیش کیا تھا تاکہ وہ ایک پاکیزہ ماحول میں پرورش پائیں، یہاں بائبل کے مؤلفین نے جان بوجھ کر لونڈی یا باندی کے طورپر پیش کیا ہے، مزید غور اور تحقیق کا متقاضی ہے۔ (کتاب اکلوتا فرزند ذبیح: اسحق یا اسمٰعیل۔ ص٣٣)
حضرت اسماعیل کی پیدائش و قربانی
کافی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد نہ تھی لہذا اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما جو میرے گھر کی رونق بنے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس بیٹے کی بشارت دی اس کی نمایاں صفت حلیم تھی۔
حضرت اسماعیل کی پیدائش حضرت حاجرہ سے ہوئی۔ اللہ کے حکم سے آپ نے دونوں کو مکہ کی وادی میں بسا دیا تاکہ ایک ایسی قوم کی داغ بیل پڑ سکے جس میں آخری پیغمبر کی بعثت ہو۔یہاں آپ اکثر آتے جاتے رہتے اور حضرت اسماعیل اور انکی والدہ کی خبر گیری کرتے رہتے تھے۔
سیدنا اسمٰعیل جب اس عمر کو پہنچے جب وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاسکتے تھے تو سیدنا ابراہیم کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ کو تین راتیں مسلسل خواب آتا رہا جس میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ اسی بیٹے کو جسے آپ نے اللہ سے دعا کرکے لیا تھا اور جو آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بن رہا تھا، ذبح کررہے ہیں چنانچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔
چنانچہ سیدنا ابراہیم نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔ آپ نے یہ رائے اس لئے دریافت نہیں کی تھی کہ اگر بیٹا اس بات پر آمادہ نہ ہو یا وہ انکار کردے تو آپ اللہ کے اس کے حکم کی تعمیل سے باز رہیں گے بلکہ اس لئے پوچھا تھا کہ آیا یہ فی الواقع صالح بیٹا ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ آپ نے جو دعا کی تھی وہ صالح بیٹے کے لئے کی تھی۔
سیدنا اسمٰعیل اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہوگئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے۔ کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا۔ بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچون وچرا تسلیم کرکے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کر لی اور اپنے پروردگار کی بھی۔
سیدنا ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل اس لئے لٹایا کہ کہیں پدرانہ شفقت تعمیل حکم الٰہی میں آڑے نہ آجائے۔ اور چھری چلاتے وقت ہاتھ میں لغزش نہ واقع ہو۔ منہ کے بل لٹانے سے نہ بیٹے کا چہرہ نظر آئے گا نہ پدرانہ جذبات برانگیختہ ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ سیدنا اسمٰعیل نے اسی مصلحت کے پیش نظر خود اپنے والد محترم کو ایسا مشورہ دیا۔
جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بے نظیر مثال قائم کر دی تو اس وقت رحمت الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً سیدنا ابراہیم پر وحی ہوئی کہ بس بس اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہوچکا جس میں تم پوری طرح کامیاب اترے ہو۔ ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔ واضح رہے کہ سیدنا ابراہیم نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ ''میں ذبح کر رہا ہوں'' یہ نہیں دیکھا تھا کہ ''میں نے ذبح کردیا ہے'' اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کر دینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔
یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکو کار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کر دیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم کوآگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں ان کے بیٹے کو بھی بچا لیا اور درجات بھی بلند کئے۔
حضرت ابراہیم کی امامت
اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام دنیا کی امامت دی جو ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
١۔ آپ ایک بت گر اور بت فروش کے گھر پیدا ہوئے۔ باپ چاہتا تھا کہ بیٹا اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن آپ علیہ السلام نے الٹا احسن انداز میں سمجھانا شروع کر دیا۔ جب باپ آپ علیہ السلام کی طرف سے مایوس ہو گیا تو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دی۔ آپ علیہ السلام نے حق کی خاطر جلاوطنی کی صعوبتیں قبول کیں۔
٢۔ قومی میلہ کے موقع پر بتوں کو پاش پاش کیا جسکے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بخوشی اس میں کودنا منظور کیا۔
٣۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہا السلام اور دودھ پیتے بچے کو اللہ کے حکم کے مطابق ایک بے آب و گیاہ میدان میں جا چھوڑا۔ جہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی آبادی کے آثار نظر آتے تھے۔
۔ بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے اسماعیل علیہ السلام جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کر دینے کا حکم ہوا تو آپ بے دریغ اور بلاتامل اس پر آمادہ ہو گئے۔ غرض آپ کی قربانیوں اور آزمائشوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود یہ سرٹیفکیٹ عطا کر دیا کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی کئی باتوں سے آزمائش کی تو وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے ان امتحانوں کے نتیجہ میں آپ کو دنیا جہان کا امام بنا دیا، اور آئندہ قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت کو آپ علیہ السلام ہی کی اولاد سے منسلک کر دیا اور دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب اپنے مذہب کی آپ علیہ السلام کی طرف نسبت کرنا باعث عزت و افتخار سمجھتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔