حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہوتے وقت فرمایا: "میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ،پھر جس نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کام کے لئے ہو گی"۔
اسلام کیا ہے ؟
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی دینِ اسلام میں ہے۔
Jan 14, 2015
Jan 1, 2015
جذبہِ محبت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے)کہتے ہیں کہ انصار کا ایک (مخلص محب اور جاں نثار)آدمی بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو (آقا علیہ السلام کی رنگت دیکھ کر)اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ میں جناب کے رنگ میں تبدیلی محسوس کررہا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(رنگت میں تبدیلی کی بڑی وجہ ہے) بھوک۔یہ معلوم کرکے وہ انصاری اپنی قیام گاہ (گھر)پر آیا، مگر اپنے گھرمیں بھی اس نے کوئی چیز نہ پائی(جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کا سامان کرکے دلی مسرت وسکون حاصل کرتا) چنانچہ وہ کھانے پینے کی کسی چیز کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا ، تو اس دوران اس نے دیکھا کہ ایک یہودی اپنے باغ کو (کنویں سے ڈول نکال نکال کر)پانی دے رہا ہے۔مذکور صحابی نے پوچھا کیا میں تمہارے باغ کو سینچ (پانی لگا)دوں ؟اس نے کہا ہاں۔انصاری نے کہا تو سن لو ایک ڈول کے بدلے ایک کھجور ہوگی۔علاوہ ازیں اس نے یہ شرط بھی لگائی کہ وہ معاوضے میں نہ اندرسے سیاہ (خراب) کھجورلے گا نہ خشک کھجوراورنہ گری پڑی کھجور بلکہ وہ اس سینچائی کے بدلے میں موٹی تازی کھجور وصول کرے گا۔ اس معاہدہ کے مطابق اس نے تقریباً وہ ساع کھجور کے برابر۔ یہودی کے باغ کی سینچائی کی (پانی لگایا)اورمزدوری سے حاصل شدہ کھجور وں کایہ نذرانہ بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کردیا۔ (ابن ماجہ)
بعض روایات میں ا س پر یہ اضافہ ہے کہ جب اس نے کھجوریں لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیںاور عرض کیا کہ تناول فرمائیے ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟اس نے سارا واقعہ بتایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرا خیال ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہو۔اس نے عرض کیا:ہاں!بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میرے نزدیک میری جان،میری اولاد، میرے اہل وعیال اورمیرے مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمت بتاتے ہوئے ) فرمایا:اگر یہ بات ہے تو پھر فقروفاقہ پر صبر کرنا اورآزمائشوں کے لیے اپنی کمر کس لینا ۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے، جو شخص میرے ساتھ (سچی محبت رکھتا ہے تو یہ دونوں مذکور ہ چیزیں (فقروفاقہ اورآزمائشیں )اس کی طرف اس پانی سے بھی زیادہ تیز دوڑ کر آتی ہیں جو پہاڑکی چوٹی سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔(الاصابہ، مجمع الزوائد: بحوالہ ،حب رسول اورصحابہ کرام)۔
بعض روایات میں ا س پر یہ اضافہ ہے کہ جب اس نے کھجوریں لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیںاور عرض کیا کہ تناول فرمائیے ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟اس نے سارا واقعہ بتایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرا خیال ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہو۔اس نے عرض کیا:ہاں!بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میرے نزدیک میری جان،میری اولاد، میرے اہل وعیال اورمیرے مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمت بتاتے ہوئے ) فرمایا:اگر یہ بات ہے تو پھر فقروفاقہ پر صبر کرنا اورآزمائشوں کے لیے اپنی کمر کس لینا ۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے، جو شخص میرے ساتھ (سچی محبت رکھتا ہے تو یہ دونوں مذکور ہ چیزیں (فقروفاقہ اورآزمائشیں )اس کی طرف اس پانی سے بھی زیادہ تیز دوڑ کر آتی ہیں جو پہاڑکی چوٹی سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔(الاصابہ، مجمع الزوائد: بحوالہ ،حب رسول اورصحابہ کرام)۔
جشن عيد ميلاد النبى جيسى بدعات كو اچھا سمجھنے والے كا رد
سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے
ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 )۔
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى
ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 )۔
دوم
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے
اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 )۔
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.
عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں
پہلى مثال
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.
دوسرى مثال
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.
تيسرى مثال
اصول فقہ كى تدوين.
چوتھى مثال
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 )۔
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں
" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 )۔
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 )۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 )۔
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى
ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 )۔
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے
چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے
اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے
اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے
اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے
ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 )۔
ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى
شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا
اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے
اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى
ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 )۔
دوم
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے
اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 )۔
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.
عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں
پہلى مثال
علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.
دوسرى مثال
كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.
تيسرى مثال
اصول فقہ كى تدوين.
چوتھى مثال
جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 )۔
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں
" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 )۔
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں
" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 )۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے
" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 )۔
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے
" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں
" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى
ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 )۔
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں
سوم
اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں. واللہ اعلم
حضرت آسیہ کا ایمان
حضرت آسیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا ایمان اپنے شوہر فرعون سے چھپایا تھا، جب فرعون کو اس کا پتہ چلا تو اس نے حکم دیا کہ اسے گوناگوں عذاب دئیے جائیں تاکہ حضرت آسیہ ایمان کو چھوڑ دیں لیکن آسیہ ثابت قدم رہیں۔ تب فرعون نے میخیں منگوائیں اور ان کے جسم پر میخیں گڑوا دیں اور فرعون کہنے لگا اب بھی وقت ہے ایمان کو چھوڑ دو مگر حضرت آسیہ نے جواب دیا، تو میرے وجود پر قادر ہے لیکن میرا دل میرے رب کی پناہ میں ہے، اگر تو میرا ہر عضو کاٹ دے تب بھی میرا عشق بیٹھتا جائے گا۔
موسٰی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، آسیہ نے موسٰی علیہ السلام سے پوچھا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا، اے آسیہ! آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں اور اللہ تعالٰی تیرے کارناموں پر فخر فرماتا ہے، سوال کر تیری ہر حاجت پوری ہوگی۔ آسیہ نے دعاء مانگی اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنادے، مجھے فرعون اس کے مظالم اور ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمایا۔
حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں، آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا، جب لوگ لوٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے آپ پر سایہ کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جنت والے گھر دیکھتی رہتی تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ جب فرعون نے حضرت آسیہ کو دھوپ میں لٹاکر چار میخیں ان کے جسم میں گڑوا دیں اور ان کے سینے پر چکی کے پاٹ رکھ دئیے گئے تو جناب آسیہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر عرض کی،
رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ
اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنا۔ (آخر تک)
جناب حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے اس دعاء کے طفیل آسیہ کو فرعون سے باعزت رہائی عطا فرمائی اور ان کو جنت میں بلا لیا جہاں وہ ذی حیات کی طرح کھاتی پیتی ہیں۔
اس حکایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مصائب اور تکالیف میں اللہ کی پناہ مانگنا، اس سے التجا کرنا اور رہائی کا سوال کرنا مومنین اور صالحین کا طریقہ ہے۔
(الماخوذ۔۔۔۔ کتاب “مکاشفۃ القلوب“)
موسٰی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، آسیہ نے موسٰی علیہ السلام سے پوچھا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا، اے آسیہ! آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں اور اللہ تعالٰی تیرے کارناموں پر فخر فرماتا ہے، سوال کر تیری ہر حاجت پوری ہوگی۔ آسیہ نے دعاء مانگی اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنادے، مجھے فرعون اس کے مظالم اور ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمایا۔
حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں، آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا، جب لوگ لوٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے آپ پر سایہ کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جنت والے گھر دیکھتی رہتی تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ جب فرعون نے حضرت آسیہ کو دھوپ میں لٹاکر چار میخیں ان کے جسم میں گڑوا دیں اور ان کے سینے پر چکی کے پاٹ رکھ دئیے گئے تو جناب آسیہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر عرض کی،
رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ
اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنا۔ (آخر تک)
جناب حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے اس دعاء کے طفیل آسیہ کو فرعون سے باعزت رہائی عطا فرمائی اور ان کو جنت میں بلا لیا جہاں وہ ذی حیات کی طرح کھاتی پیتی ہیں۔
اس حکایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مصائب اور تکالیف میں اللہ کی پناہ مانگنا، اس سے التجا کرنا اور رہائی کا سوال کرنا مومنین اور صالحین کا طریقہ ہے۔
(الماخوذ۔۔۔۔ کتاب “مکاشفۃ القلوب“)
اے خالقِ کُل اے مالکِ كُل
اے خالقِ کُل اے مالکِ كُل اے عالِمِ كُل اے قادرِ كُل
رَحمان ہے تو سبُحان ہے تو كوئى تيرى صفتيں پا نہ سكا
ہر شے پہ تصرُّف ہے تیرا جب حُكم كيا تب مِينہ برسا
اے مالک اَبر سے تيرے سوا اک بُوند بھی كوئى گرا نہ سكا
قادِر وہ نہيں جس سے كبھی بن سكتى نہيں اک مکھّی بھی
مكھی تو بنانا دور رہا اِک بال بھى بدلا جا نہ سكا
مَخلُوق ہے وہ مَجبُور ہے وہ مَحکُوم ہے وہ مختار نہیں
جو ضُعف و ضرَر سے سُقم و اجَل سے اپنى جاں بچا نہ سكا
تو جس كو ڈبونے پر آئے پھر كس ميں ہے قُدرت پار كرے
مجبُور رہا محبُوب ترا كشتى ميں پِسر كو بٹھا نہ سكا
ہر دل پہ تَصَرُّف ہے تیرا اِیمان ہے تیری ایک عطا
جس دل پر تيرى مہر لگی اسے كَلِمہ كوئى پڑھا نہ سكا
زندے ہیں وسیلہ زندوں کا ، زندے ہی تعاون کرتے ہیں
کوئی مُردہ نکل کے تُربت سے دُنیا کے کام بنا نہ سکا
مُردوں کو اٹھاتے ہیں زندے ، جا کر دفناتے ہیں زندے
جب رُوح بدَن کو چھوڑ گئی کوئی چل کے لَحَد کو جا نہ سکا
خاموشؔ کو رکھ اپنا ہی گدا ، کر صَبر و تَوَکُّل اس کو عطا
اِس دَر کے سوا دُنیا کو نبی ، دَر اور کسی کا بتا نہ سکا
رَحمان ہے تو سبُحان ہے تو كوئى تيرى صفتيں پا نہ سكا
ہر شے پہ تصرُّف ہے تیرا جب حُكم كيا تب مِينہ برسا
اے مالک اَبر سے تيرے سوا اک بُوند بھی كوئى گرا نہ سكا
قادِر وہ نہيں جس سے كبھی بن سكتى نہيں اک مکھّی بھی
مكھی تو بنانا دور رہا اِک بال بھى بدلا جا نہ سكا
مَخلُوق ہے وہ مَجبُور ہے وہ مَحکُوم ہے وہ مختار نہیں
جو ضُعف و ضرَر سے سُقم و اجَل سے اپنى جاں بچا نہ سكا
تو جس كو ڈبونے پر آئے پھر كس ميں ہے قُدرت پار كرے
مجبُور رہا محبُوب ترا كشتى ميں پِسر كو بٹھا نہ سكا
ہر دل پہ تَصَرُّف ہے تیرا اِیمان ہے تیری ایک عطا
جس دل پر تيرى مہر لگی اسے كَلِمہ كوئى پڑھا نہ سكا
زندے ہیں وسیلہ زندوں کا ، زندے ہی تعاون کرتے ہیں
کوئی مُردہ نکل کے تُربت سے دُنیا کے کام بنا نہ سکا
مُردوں کو اٹھاتے ہیں زندے ، جا کر دفناتے ہیں زندے
جب رُوح بدَن کو چھوڑ گئی کوئی چل کے لَحَد کو جا نہ سکا
خاموشؔ کو رکھ اپنا ہی گدا ، کر صَبر و تَوَکُّل اس کو عطا
اِس دَر کے سوا دُنیا کو نبی ، دَر اور کسی کا بتا نہ سکا
اے خالقِ کُل اے مالکِ كُل اے عالِمِ كُل اے قادرِ كُل
رَحمان ہے تو سبُحان ہے تو كوئى تيرى صفتيں پا نہ سكا
رَحمان ہے تو سبُحان ہے تو كوئى تيرى صفتيں پا نہ سكا
جوتے میں پیسے
کسی یونیورسٹی کاایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا.. پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے.. چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی.. جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے غریب کسان کی لگتی تھی..
طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا "ایسا کرتے ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں.. اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں.. اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں.. اور پھردیکھتے ہیں.. کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے.."
پروفیسر نے جواب دیا "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے.. تم ایک امیر لڑکے ہو.. اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو..
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو.. اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں.. اور دیکھتے ہیں.. کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے.."
لڑکے نے ایسا ہی کیا.. اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے..
غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا.. جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے..کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالا.. تو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی.. وہ دیکھنے کی خاطر جھکا.. تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا..
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا.. اسے الٹ پلٹ کیا.. اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا.. پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی.. کہ شاید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے.. لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا.. اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا.. لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی.. اور اسے ایک جھٹکا سا لگا.. جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا.. اس کے ساتھ ہی وفور جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں.. وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا.. اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا.. کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی.. وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے.. کوئی پرسان حال نہ تھا..
طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا.. اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.. تب اچانک پروفیسر بول پڑے.. اور لڑکے سے پوچھنے لگے " کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو.. یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے..؟"
لڑکے نے جواب دیا " آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے.. جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا.. اور آج مجھے ان الفاظ کی حقیقت کا بھی صحیح ادراک ہوا ہے.. جو پہلے کبھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آ سکے.. کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے..!! "
اگر آپ بھی زندگی میں حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں.. تو دوسروں کی مدد کیجئے۔
طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا "ایسا کرتے ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں.. اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں.. اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں.. اور پھردیکھتے ہیں.. کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے.."
پروفیسر نے جواب دیا "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے.. تم ایک امیر لڑکے ہو.. اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو..
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو.. اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں.. اور دیکھتے ہیں.. کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے.."
لڑکے نے ایسا ہی کیا.. اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے..
غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا.. جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے..کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالا.. تو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی.. وہ دیکھنے کی خاطر جھکا.. تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا..
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا.. اسے الٹ پلٹ کیا.. اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا.. پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی.. کہ شاید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے.. لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا.. اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا.. لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی.. اور اسے ایک جھٹکا سا لگا.. جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا.. اس کے ساتھ ہی وفور جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں.. وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا.. اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا.. کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی.. وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے.. کوئی پرسان حال نہ تھا..
طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا.. اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.. تب اچانک پروفیسر بول پڑے.. اور لڑکے سے پوچھنے لگے " کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو.. یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے..؟"
لڑکے نے جواب دیا " آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے.. جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا.. اور آج مجھے ان الفاظ کی حقیقت کا بھی صحیح ادراک ہوا ہے.. جو پہلے کبھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آ سکے.. کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے..!! "
اگر آپ بھی زندگی میں حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں.. تو دوسروں کی مدد کیجئے۔
Dec 30, 2014
اک بہادر لڑکی
جس میں غیرت ہو وہی بہادر ہوتا ہے اور جو بہادر ہو وہی لڑتا ہے۔ اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی پاک بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا!
اے (میرے پیارے) نبیﷺ کی خواتین! تمہارا مقام عام عورتوں سے بہت اونچا ہے۔ اسے برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے کہ (اللہ سے) ڈرتی رہو۔ (کسی شخص سے بات کرنا پڑ جائے) تو گفتگو میں ایسی نزاکت و نرمی نہ ہو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ لالچ کرنے لگ جائے لہٰذا بات کرو تو معروف طریقے سے بات کرو (احزاب: 32)
سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبیﷺ کی پاک خواتین کو مزید پاکیزگی کا درس دے رہا ہے۔ عزت کی حفاظت میں پاکیزگی سے ہی غیرت اور بہادری پیدا ہوتی ہے لہٰذا ہماری ساری مائیں بڑی بہادر تھیں۔ حضرت عائشہؓ کی بہادری تو احد کے غزوہ میں بھی نظر آتی ہے جہاں آپ زخمیوں کو پانی پلاتے اور مرہم پٹی کرتے نظر آتی ہیں، دیگر صحابیات آپ کے ہمراہ دکھائی دیتی ہیں۔
سورۂ احزاب میں اس تاریخی غزوہ کا تذکرہ ہے جس میں دس ہزار کی تعداد میں مکہ کے مشرک مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے آئے تھے، ایک مہینہ کے قریب یہ محاصرہ جاری رہا، اللہ کے رسولﷺ اپنے سات سو کے قریب دلیر صحابہ کے ساتھ خندق کھود کر دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے۔ مدینہ شہر میں ایک جگہ عورتوں اور بچوں کو اکٹھا کر دیا گیا تھا۔
یہودی جو اندر سے مشرکوں سے ملے ہوئے تھے، ان کا پروگرام تھا کہ اندر سے ہم حملہ کریں گے، انہوں نے اپنا ایک یہودی جاسوس بھیجا کہ وہ معلوم کرے کہ جہاں عورتیں اور بچے ہیں وہاں اگر مسلمان مرد حفاظت کے لئے نہ ہوں تو عورتوں اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔ اب جب ان کا جاسوس آیا اور مطلوبہ جگہ کے اردگرد پھرنے لگا تو اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی جان حضرت صفیہؓ نے اسے دیکھ لیا چنانچہ انہوں نے خطرہ بھانپتے ہوئے اوپر سے پتھر پھینکا جو اس یہودی کے سر پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
باقی یہودی جو پیچھے فاصلے پر کھڑے تھے وہ سہم گئے اور کہنے لگے، یہاں تو مسلمانوں کا لڑاکا دستہ موجود ہے۔ یوں مسلمان خواتین اور بچوں کی جان اور عزتوں کو بچایا تو اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے بچایا۔ اللہ کے رسولﷺ ساری امت سے بڑھ کر بہادر تھے۔ آپ کی پھوپھی جان بھی بہادر تھیں اور پھوپھی جان کے بھائی حضرت حمزہؓ بھی بہادر تھے وہ تو سید الشہداء تھے۔
فلسطینی بہادر لڑکیوں کے بھی کئی واقعات ہیں۔ کشمیری لڑکی مجھے نہیں بھولتی جس کی عزت کے درپے ایک ہندو مشرک فوجی ہوا تو اس نے خنجر کا وار کر کے مشرک ہندو فوجی مردار کر دیا۔ عراق میں ایک عرب لڑکی نے بھی امریکی فوجی کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر کے مار دیا لیکن پیچھے کھڑے دوسرے فوجی نے اس دلیر لڑکی کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ وہ دلیر مسلمان لڑکی اپنی عزت بچا لے گئی۔ امریکی درندے کو جان سے مار گئی اور خود شہادت پا گئی (ان شاء اللہ)
فرانس وہ ملک ہے جس میں باقی یورپین ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ وہاں تعصب بھی بہت زیادہ ہے۔ حجاب اور سکارف کا مسئلہ سب سے زیادہ یہیں پیدا ہوا۔ سکارف لینے والی غیرت مند مصری خاتون مروہ کا قتل بھی یہیں ہوا۔ عدالت میں انہیں شہید کیا گیا۔ جرمنی کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ عامر چیمہ کو جرمنی نے ہی شہید کیا تھا اور اب بہادری کا ایوارڈ بھی جرمنی کے ملک نے ایک مسلمان لڑکی ہی کو دیا۔ اس لڑکی کا نام ’’نوبچے‘‘ ہے۔ یہ مسلمان لڑکی ہے جو جرمنی میں پیدا ہوئی اور جوان ہوئی۔
برلن کے بعد فرینکفرٹ جرمنی کا ایک بڑا شہر ہے، اس شہر کے نواح میں ایک قصبہ ہے جس کا نام ’’اوفن باخ‘‘ ہے۔ یہاں کے ایک ریسٹورنٹ میں دو لڑکیاں کھانا کھانے کے بعد واش روم میں گئیں تو ایک جرمن گورے صلیبی نے ان کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی۔ انہوں نے شور مچایا تو مسلمان لڑکی نے مظلوم لڑکیوں کی مدد کے لئے گورے صلیبی پر حملہ کر دیا۔ یوں لڑکیاں بچ گئیں۔ بعد میں موقع پا کر اسی گورے صلیبی نے ریسٹورنٹ کے پارکنگ ایریا میں مسلمان لڑکی پر حملہ کر دیا۔ سر میں چاقو کے وار کئے تو نو بچے زخمی ہو گئی۔ ہسپتال میں چند روز زیر علاج رہنے کے بعد آخرکار اپنے اللہ سے جا ملیں۔ —
جرمنی کے لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا، وہاں کے اخبارات نے نوبچے کی بہادری کو سراہا، اسے خراج تحسین پیش کیا اور پھر جرمنی کے لوگوں نے ایک لاکھ سے زائد دستخطوں کے ساتھ اپنے صدر سے مطالبہ کیا کہ جرمنی کا سب سے بڑا بہادری کا ایوارڈ نوبچے کو دیا جائے۔ جرمنی کے صدر گاؤک نے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا اور یوں اب مسلمان لڑکی نوبچے سرکاری سطح پر جرمنی کی بہادر لڑکی قرار دی گئی ہے۔ میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں اپنی اس مسلمان بیٹی کو کہ اس نے اسلام کی بہادرانہ روایت کو ایک بار پھر زندہ کر دیا اور یورپ کے اہم اور طاقتور ملک جرمنی میں اپنی بہادری کا لوہا منوا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس عطا فرمائے (آمین)
حق تو یہ ہے کہ اس کے قاتل گورے صلیبی کو قتل کی سزا دی جائے کیونکہ بائبل میں بھی قاتل کی سزا قتل ہے اور ہر زخم کا بدلہ ہے۔ کاش! اگر اہل کتاب اس پر عمل کر لیں تو امن کا پروانہ حاصل کر لیں مگر اہل کتاب کو کیا کہوں یہاں تو اپنے مسلمان ملک بھی قرآن کے قانون سے لاپروا ہیں، قصاص سے نابلد ہیں اور یوں قتل عام ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو ہدایت دے۔ قرآن کا قانون نافذ کر دیں تو ہر جان محفوظ ہو جائے ہر کلی درندوں کے ہاتھوں میں مسلے جانے سے بچ جائے۔ اگر نوبچے کی بہادری ہمارے بزدل حکمرانوں کو بہادربنا دے اور وہ ہمت کر کے اسلام کا قانون قصاص نافذ کر دیں۔ عملدرآمد کر دیں تو میرا پاکستان بھی میری بہنوں اور بیٹیوں کے امن کا باغ بن جائے۔ —
آمین
اے (میرے پیارے) نبیﷺ کی خواتین! تمہارا مقام عام عورتوں سے بہت اونچا ہے۔ اسے برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے کہ (اللہ سے) ڈرتی رہو۔ (کسی شخص سے بات کرنا پڑ جائے) تو گفتگو میں ایسی نزاکت و نرمی نہ ہو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وہ لالچ کرنے لگ جائے لہٰذا بات کرو تو معروف طریقے سے بات کرو (احزاب: 32)
سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبیﷺ کی پاک خواتین کو مزید پاکیزگی کا درس دے رہا ہے۔ عزت کی حفاظت میں پاکیزگی سے ہی غیرت اور بہادری پیدا ہوتی ہے لہٰذا ہماری ساری مائیں بڑی بہادر تھیں۔ حضرت عائشہؓ کی بہادری تو احد کے غزوہ میں بھی نظر آتی ہے جہاں آپ زخمیوں کو پانی پلاتے اور مرہم پٹی کرتے نظر آتی ہیں، دیگر صحابیات آپ کے ہمراہ دکھائی دیتی ہیں۔
سورۂ احزاب میں اس تاریخی غزوہ کا تذکرہ ہے جس میں دس ہزار کی تعداد میں مکہ کے مشرک مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے آئے تھے، ایک مہینہ کے قریب یہ محاصرہ جاری رہا، اللہ کے رسولﷺ اپنے سات سو کے قریب دلیر صحابہ کے ساتھ خندق کھود کر دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے۔ مدینہ شہر میں ایک جگہ عورتوں اور بچوں کو اکٹھا کر دیا گیا تھا۔
یہودی جو اندر سے مشرکوں سے ملے ہوئے تھے، ان کا پروگرام تھا کہ اندر سے ہم حملہ کریں گے، انہوں نے اپنا ایک یہودی جاسوس بھیجا کہ وہ معلوم کرے کہ جہاں عورتیں اور بچے ہیں وہاں اگر مسلمان مرد حفاظت کے لئے نہ ہوں تو عورتوں اور بچوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔ اب جب ان کا جاسوس آیا اور مطلوبہ جگہ کے اردگرد پھرنے لگا تو اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی جان حضرت صفیہؓ نے اسے دیکھ لیا چنانچہ انہوں نے خطرہ بھانپتے ہوئے اوپر سے پتھر پھینکا جو اس یہودی کے سر پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔
باقی یہودی جو پیچھے فاصلے پر کھڑے تھے وہ سہم گئے اور کہنے لگے، یہاں تو مسلمانوں کا لڑاکا دستہ موجود ہے۔ یوں مسلمان خواتین اور بچوں کی جان اور عزتوں کو بچایا تو اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے بچایا۔ اللہ کے رسولﷺ ساری امت سے بڑھ کر بہادر تھے۔ آپ کی پھوپھی جان بھی بہادر تھیں اور پھوپھی جان کے بھائی حضرت حمزہؓ بھی بہادر تھے وہ تو سید الشہداء تھے۔
فلسطینی بہادر لڑکیوں کے بھی کئی واقعات ہیں۔ کشمیری لڑکی مجھے نہیں بھولتی جس کی عزت کے درپے ایک ہندو مشرک فوجی ہوا تو اس نے خنجر کا وار کر کے مشرک ہندو فوجی مردار کر دیا۔ عراق میں ایک عرب لڑکی نے بھی امریکی فوجی کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر کے مار دیا لیکن پیچھے کھڑے دوسرے فوجی نے اس دلیر لڑکی کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ وہ دلیر مسلمان لڑکی اپنی عزت بچا لے گئی۔ امریکی درندے کو جان سے مار گئی اور خود شہادت پا گئی (ان شاء اللہ)
فرانس وہ ملک ہے جس میں باقی یورپین ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ وہاں تعصب بھی بہت زیادہ ہے۔ حجاب اور سکارف کا مسئلہ سب سے زیادہ یہیں پیدا ہوا۔ سکارف لینے والی غیرت مند مصری خاتون مروہ کا قتل بھی یہیں ہوا۔ عدالت میں انہیں شہید کیا گیا۔ جرمنی کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ عامر چیمہ کو جرمنی نے ہی شہید کیا تھا اور اب بہادری کا ایوارڈ بھی جرمنی کے ملک نے ایک مسلمان لڑکی ہی کو دیا۔ اس لڑکی کا نام ’’نوبچے‘‘ ہے۔ یہ مسلمان لڑکی ہے جو جرمنی میں پیدا ہوئی اور جوان ہوئی۔
برلن کے بعد فرینکفرٹ جرمنی کا ایک بڑا شہر ہے، اس شہر کے نواح میں ایک قصبہ ہے جس کا نام ’’اوفن باخ‘‘ ہے۔ یہاں کے ایک ریسٹورنٹ میں دو لڑکیاں کھانا کھانے کے بعد واش روم میں گئیں تو ایک جرمن گورے صلیبی نے ان کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی۔ انہوں نے شور مچایا تو مسلمان لڑکی نے مظلوم لڑکیوں کی مدد کے لئے گورے صلیبی پر حملہ کر دیا۔ یوں لڑکیاں بچ گئیں۔ بعد میں موقع پا کر اسی گورے صلیبی نے ریسٹورنٹ کے پارکنگ ایریا میں مسلمان لڑکی پر حملہ کر دیا۔ سر میں چاقو کے وار کئے تو نو بچے زخمی ہو گئی۔ ہسپتال میں چند روز زیر علاج رہنے کے بعد آخرکار اپنے اللہ سے جا ملیں۔ —
جرمنی کے لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا، وہاں کے اخبارات نے نوبچے کی بہادری کو سراہا، اسے خراج تحسین پیش کیا اور پھر جرمنی کے لوگوں نے ایک لاکھ سے زائد دستخطوں کے ساتھ اپنے صدر سے مطالبہ کیا کہ جرمنی کا سب سے بڑا بہادری کا ایوارڈ نوبچے کو دیا جائے۔ جرمنی کے صدر گاؤک نے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا اور یوں اب مسلمان لڑکی نوبچے سرکاری سطح پر جرمنی کی بہادر لڑکی قرار دی گئی ہے۔ میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں اپنی اس مسلمان بیٹی کو کہ اس نے اسلام کی بہادرانہ روایت کو ایک بار پھر زندہ کر دیا اور یورپ کے اہم اور طاقتور ملک جرمنی میں اپنی بہادری کا لوہا منوا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس عطا فرمائے (آمین)
حق تو یہ ہے کہ اس کے قاتل گورے صلیبی کو قتل کی سزا دی جائے کیونکہ بائبل میں بھی قاتل کی سزا قتل ہے اور ہر زخم کا بدلہ ہے۔ کاش! اگر اہل کتاب اس پر عمل کر لیں تو امن کا پروانہ حاصل کر لیں مگر اہل کتاب کو کیا کہوں یہاں تو اپنے مسلمان ملک بھی قرآن کے قانون سے لاپروا ہیں، قصاص سے نابلد ہیں اور یوں قتل عام ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوں کو ہدایت دے۔ قرآن کا قانون نافذ کر دیں تو ہر جان محفوظ ہو جائے ہر کلی درندوں کے ہاتھوں میں مسلے جانے سے بچ جائے۔ اگر نوبچے کی بہادری ہمارے بزدل حکمرانوں کو بہادربنا دے اور وہ ہمت کر کے اسلام کا قانون قصاص نافذ کر دیں۔ عملدرآمد کر دیں تو میرا پاکستان بھی میری بہنوں اور بیٹیوں کے امن کا باغ بن جائے۔ —
آمین
مسلمان کی صبح و شام
ﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ اب انسان کو چاہیے کہ وہ دیگر مخلوقات سے منفرد صبح و شام کرے ۔ جس طرح ہمارے اسلاف کی صبح و شام ہوا کرتی تھی۔ جیسا کہ حضرت مجاہد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہمانے فرمایا اے مجاہد! جب صبح کرے تو تیرے جی میں شام کا خیال نہ آئے اور شام کرے تو دل میں صبح کا خیال مت لا۔ موت سے پہلے پہلے اپنی زندگی سے فائدہ اٹھالے اور بیماری سے پہلے پہلے اپنی صحت سے فائدہ حاصل کر۔ کیا معلوم ! کل تجھے کس نام سے پکارا جائے گا؟
چار چیزوں کی نیت:کسی دانا کا قول ہے کہ آدمی صبح کرتا ہے تو اسے چار چیزوں کی نیت کرنی چاہیے :ایک اﷲ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے کی ،دوسری جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکنے کی ،تیسری معاملات والوں کے ساتھ انصاف کرنے کی اور چوتھی یہ کہ جن کے ساتھ جھگڑا ہے ان کے ساتھ مصالحت کرنے کی ۔ جب ان چار نیتوں پر صبح کرے گا تو امید ہے کہ صالحین میں شمار ہونے لگے اور کامیاب ہو جائے ۔
سونے اور اٹھنے کی کیفیت:کسی دانا سے پوچھا گیا کہ آدمی کو اپنے بستر سے کس نیت سے اٹھنا چاہیے؟ فرمایا کہ اس سوال سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ سونا کس نیت سے چاہیے؟ اٹھنے کا سوال تو پھر ہو گا۔ جو سونے کی حالت اور کیفیت سے واقف نہیں وہ جاگنے کا طریق کیا جانے گا؟ پھر فرمایا کہ بندے کو اس وقت تک سونا مناسب نہیں جب تک چار چیزیں درست نہ کر لے :پہلی تو یہ کہ روئے زمین پر اگر کسی شخص کا اس پر کچھ مطالبہ ہے تو اس معاملہ کو ختم کیے بغیر سونا مناسب نہیں ۔ کیا جانے کہ ملک الموت آجائے اور اسی حال میں اﷲ تعالیٰ کے حضور پیشی ہو کہ کوئی عذر یا دلیل پاس نہ ہو ۔ دوسری یہ کہ سونے سے پہلے دیکھ لے کہ اﷲ تعالیٰ کے فرائض میں سے کوئی فرض میرے ذمہ باقی تو نہیں؟ تیسری یہ کہ سونے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کر لے ۔ ممکن ہے اسی رات ملک الموت آجا ئے اور توبہ کئے بغیر ہی موت کی آغوش میں چلا جائے ۔ چوتھی یہ کہ سونے سے پہلے اپنی وصیت صحیح اور جائز طریق سے لکھی ہوئی ہو ۔ مباد ا وصیت کے بغیر ہی مرجائے ۔
صبح کرنے کی حالتیں:کہتے ہیں کہ لوگ تین حالتوں میں صبح کرتے ہیں:
۱) کچھ لوگ طلب مال میں۔
۲) کچھ لوگ گناہ کی طلب میں۔
۳) کچھ لوگ صحیح طریق کی طلب میں۔
طلب مال میں صبح کرنے والے اس مقدار سے زیادہ نہیں کھا سکتے جو مقدار اﷲ تعالیٰ نے ان کیلئے مقدر فرمادی ، گومال کتنا ہی جمع کر لیں ۔ گناہ کی طلب کرنے والا ذلت اور رسوائی کا منہ دیکھتا ہے ۔صحیح طریق کے متلاشی کو اﷲ تعالیٰ رزق بھی عطا فرماتا ہے اور ہدایت بھی۔
بعض حکماء کا قول ہے کہ ہر صبح کرنے والے کو دوباتیں لازم ہیں:امن و خوف ۔ امن تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے رزق کی جو کفالت قبول فرمائی ہے اس پر اطمینان ہو اور اﷲ تعالیٰ کے احکام کے معاملہ میں خوف اور ڈر رکھے تاکہ ان کو اچھی طرح سے ادا کر سکے ۔ بندہ جب یہ دو کام کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے دو چیزوں سے نوازتا ہے : اپنے دئیے ہوئے پر اسے قناعت عطا فرماتا ہے اور اطاعت خدا وندی میں لذت محسوس ہوتی ہے ۔
اکابر کی صبح:ربیع بن خثیم رحمۃ اﷲ علیہ سے کوئی پوچھتا کہ صبح کس حال میں کی ؟ تو جواب دیتے کہ ہماری صبح تو یہ ہے کہ اپنا ضعف اور گناہ پیش نظر ہیں اﷲ کا رزق کھاتے اور موت کے انتظار میں ہیں۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ صبح کس حال میں کی ؟فرمایا وہ شخص کیسی صبح گزارے گا جو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے کی فکر میں ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ ٹھکانا جنت میں ہے یا دوزخ میں؟
کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ اے روح اﷲ ! آپ کی صبح کیسی ہے ؟ ارشاد فرمایا صبح کا یہ حال ہے کہ جس چیز کی امید رکھے ہوئے ہوں اس کا مالک نہیں ۔ جس کا خطرہ ہے اسے دفع کرنے کی طاقت نہیں ۔اپنے اعمال کے حال میں جکڑا ہوا ہوں۔ خیر اور بھلائی سب کی سب میرے اﷲ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اور مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہ ہو گا۔
عامر بن قیس رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ تیری صبح کا کیا حال ہے ؟ فرمایا کہ میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں اور اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں دبا ہوا ہوں۔ کچھ پتہ نہیں کہ میری عبادتیں میرے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں یا انعامات الٰہیہ کے شکرانے میں شمار ہو جاتی ہیں؟
کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ نے کسی سے حال پوچھا ۔ اس نے کہا کہ اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کے ذمہ پانچ سو درہم کا قرضہ ہے اور وہ عیال دار بھی ہے ؟ یہ سن کر محمد بن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ گھر تشریف لے گئے ۔ ہزار درہم لا کر اسے دے کر فرمایا کہ پانچ سو کا قرض ادا کر اور باقی پانچ سو اپنے اہل و عیال پر خرچ کر۔اس کے بعد پھر کسی سے حال نہیں پوچھا کرتے تھے کہ مباد اوہ اپنا ایسا حال بتائے کہ جس کی اصلاح ان کے ذمہ واجب ہو جائے ۔
چار چیزوں کا شکر :حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر صبح کرنے والے پر چار چیزوں کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ پہلا تو بطور شکریہ کہے :’’سب تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے میرے دل کو نور ہدایت سے منور فرمایا اور مجھے اہل ایمان میں رکھا اور گمراہ نہیں کیا ۔‘‘
دوسرا شکریوں کرے :’’تمام تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے مجھے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا امتی بنایا ۔‘‘
تیسرا شکر یہ کرے:’’اس ذات کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے میرا رزق کسی اور کے قبضہ میں نہیں دیا ۔‘‘
اور چوتھا شکریوں کرے:’’سب تعریفیں اس اﷲ کی ہیں جس نے میرے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائی۔‘‘
چار چیزوں کو جاننا ضروری ہے :حضرت شقیق بن ابراہیم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اگر دو سو برس تک زندہ رہے اور ان چار چیزوں کو نہ جان سکے تو کوئی چیز بھی اس سے زیادہ دوزخ کو سزاوار نہیں:ایک اﷲ تعالیٰ کی معرفت، دوسرے اﷲ تعالیٰ کے عمل کی معرفت، تیسرے اپنے نفس کی معرفت، چوتھے اپنے اور اپنے اﷲ تعالیٰ کے دشمن کی معرفت۔ اﷲ کی معرفت تو یہ ہے کہ ظاہر و پوشیدہ میں اسی کا فیضان سمجھے کہ کوئی اس کے سوا نہ عطا کرنے والا ہے اور نہ روکنے والا ۔ اﷲ کے عمل کی معرفت یہ ہے کہ یہ یقین حاصل ہو کہ اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کی رضا کیلئے ہو ۔ اپنے نفس کی معرفت یہ ہے کہ اپنا ضعف پہچانے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرما دیا ہے یہ اسے ذرا بھی رد نہیں کر سکتا ۔ الغرض قسمت خدا وندی پر راضی رہے ۔ اﷲ کے اور اپنے دشمنوں کی معرفت یہ ہے کہ اسے شر اور برائی کی اصل جڑ سمجھے اور اس کا علاج معرفت خدا وندی کے ذریعہ سے کرے حتیٰ کہ اس کی قوت کمزور پڑ جائے۔
دس لازم چیزیں:کہتے ہیں کہ ہر روز ابن آدم پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دس چیزیں لازم ہوتی ہیں : اول یہ کہ اٹھتے وقت اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرے ۔ ’’یعنی اٹھتے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد کیجئے۔‘‘اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’اے ایمان والو! تم اﷲ تعالیٰ کو خوب کثرت سے یاد کرو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘
دوسری چیز پردہ کے بدن کو چھپانا ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اے اولاد آدم ! مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔‘‘
اور زینت کا ادنیٰ درجہ ستر عورت ہے ۔تیسری چیز اپنے وقت پر اچھی طرح وضو کرنا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :’’‘‘اے ایمان والو! جب تم اٹھو نماز کو تو دھولو اپنے منہ او رہاتھ کہنیوں تک اور مل لو اپنے سر کو اور پاؤں ٹخنوں تک ۔‘‘
چوتھی بات اپنے وقت پر نماز اچھی طرح سے ادا کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :’’یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے ۔‘‘
یعنی خاص خاص اوقات میں مقرر کردہ فریضہ ہے ۔پانچویں یہ کہ رزق کے وعدہ میں اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اور کوئی جاندار روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اﷲ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو۔‘‘
چھٹی چیز یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا پر قناعت کرے اور اس پر راضی رہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’دینوی زندگی میں انکی روزی ہم نے تقسیم کر رکھی ہے ۔‘‘ساتویں یہ کہ اﷲ تعالیٰ پر توکل کرے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور اس زندہ پر توکل رکھیے جو کبھی نہیں مرے گا۔‘‘اور دوسرے مقام پر ’’اور اﷲ تعالیٰ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘
آٹھویں اﷲ تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم پر صبر کرنا ۔قرآن کریم میں فرمایا :’’اور اپنے رب کی تجویز پر صبر کریں۔‘‘اور دوسرے مقام پر فرمایا :’’اے ایمان والو! خودصبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو‘‘نویں یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کیا کرو ۔ حکم خدا وندی ہے :’’‘‘اور اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔اور اولین نعمت صحت جسمانی ہے اور سب سے بڑی نعمت دین اسلام کی نعمت ہے گو نعمتیں بے حدو بے شمار ہیں ، جیسا کہ ارشاد ہے :’’اور اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو گننے لگو تو نہ گن سکو۔‘‘اور دسویں چیز اکل حلال ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ہم نے جو نفیس چیزیں تم کو دی ہیں ان کو کھاؤ۔‘‘اس سے مراد رزق حلال ہے ۔
ﷲ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ
وہ ہمیں اپنی صبح و شام اپنے احکامات کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
چار چیزوں کی نیت:کسی دانا کا قول ہے کہ آدمی صبح کرتا ہے تو اسے چار چیزوں کی نیت کرنی چاہیے :ایک اﷲ تعالیٰ کے فرائض ادا کرنے کی ،دوسری جن باتوں سے اﷲ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے رکنے کی ،تیسری معاملات والوں کے ساتھ انصاف کرنے کی اور چوتھی یہ کہ جن کے ساتھ جھگڑا ہے ان کے ساتھ مصالحت کرنے کی ۔ جب ان چار نیتوں پر صبح کرے گا تو امید ہے کہ صالحین میں شمار ہونے لگے اور کامیاب ہو جائے ۔
سونے اور اٹھنے کی کیفیت:کسی دانا سے پوچھا گیا کہ آدمی کو اپنے بستر سے کس نیت سے اٹھنا چاہیے؟ فرمایا کہ اس سوال سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ سونا کس نیت سے چاہیے؟ اٹھنے کا سوال تو پھر ہو گا۔ جو سونے کی حالت اور کیفیت سے واقف نہیں وہ جاگنے کا طریق کیا جانے گا؟ پھر فرمایا کہ بندے کو اس وقت تک سونا مناسب نہیں جب تک چار چیزیں درست نہ کر لے :پہلی تو یہ کہ روئے زمین پر اگر کسی شخص کا اس پر کچھ مطالبہ ہے تو اس معاملہ کو ختم کیے بغیر سونا مناسب نہیں ۔ کیا جانے کہ ملک الموت آجائے اور اسی حال میں اﷲ تعالیٰ کے حضور پیشی ہو کہ کوئی عذر یا دلیل پاس نہ ہو ۔ دوسری یہ کہ سونے سے پہلے دیکھ لے کہ اﷲ تعالیٰ کے فرائض میں سے کوئی فرض میرے ذمہ باقی تو نہیں؟ تیسری یہ کہ سونے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کر لے ۔ ممکن ہے اسی رات ملک الموت آجا ئے اور توبہ کئے بغیر ہی موت کی آغوش میں چلا جائے ۔ چوتھی یہ کہ سونے سے پہلے اپنی وصیت صحیح اور جائز طریق سے لکھی ہوئی ہو ۔ مباد ا وصیت کے بغیر ہی مرجائے ۔
صبح کرنے کی حالتیں:کہتے ہیں کہ لوگ تین حالتوں میں صبح کرتے ہیں:
۱) کچھ لوگ طلب مال میں۔
۲) کچھ لوگ گناہ کی طلب میں۔
۳) کچھ لوگ صحیح طریق کی طلب میں۔
طلب مال میں صبح کرنے والے اس مقدار سے زیادہ نہیں کھا سکتے جو مقدار اﷲ تعالیٰ نے ان کیلئے مقدر فرمادی ، گومال کتنا ہی جمع کر لیں ۔ گناہ کی طلب کرنے والا ذلت اور رسوائی کا منہ دیکھتا ہے ۔صحیح طریق کے متلاشی کو اﷲ تعالیٰ رزق بھی عطا فرماتا ہے اور ہدایت بھی۔
بعض حکماء کا قول ہے کہ ہر صبح کرنے والے کو دوباتیں لازم ہیں:امن و خوف ۔ امن تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے رزق کی جو کفالت قبول فرمائی ہے اس پر اطمینان ہو اور اﷲ تعالیٰ کے احکام کے معاملہ میں خوف اور ڈر رکھے تاکہ ان کو اچھی طرح سے ادا کر سکے ۔ بندہ جب یہ دو کام کر لیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے دو چیزوں سے نوازتا ہے : اپنے دئیے ہوئے پر اسے قناعت عطا فرماتا ہے اور اطاعت خدا وندی میں لذت محسوس ہوتی ہے ۔
اکابر کی صبح:ربیع بن خثیم رحمۃ اﷲ علیہ سے کوئی پوچھتا کہ صبح کس حال میں کی ؟ تو جواب دیتے کہ ہماری صبح تو یہ ہے کہ اپنا ضعف اور گناہ پیش نظر ہیں اﷲ کا رزق کھاتے اور موت کے انتظار میں ہیں۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ صبح کس حال میں کی ؟فرمایا وہ شخص کیسی صبح گزارے گا جو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے کی فکر میں ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ ٹھکانا جنت میں ہے یا دوزخ میں؟
کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا کہ اے روح اﷲ ! آپ کی صبح کیسی ہے ؟ ارشاد فرمایا صبح کا یہ حال ہے کہ جس چیز کی امید رکھے ہوئے ہوں اس کا مالک نہیں ۔ جس کا خطرہ ہے اسے دفع کرنے کی طاقت نہیں ۔اپنے اعمال کے حال میں جکڑا ہوا ہوں۔ خیر اور بھلائی سب کی سب میرے اﷲ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اور مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہ ہو گا۔
عامر بن قیس رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ تیری صبح کا کیا حال ہے ؟ فرمایا کہ میں نے اس حال میں صبح کی ہے کہ اپنے اوپر گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں اور اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں دبا ہوا ہوں۔ کچھ پتہ نہیں کہ میری عبادتیں میرے گناہوں کا کفارہ بنتی ہیں یا انعامات الٰہیہ کے شکرانے میں شمار ہو جاتی ہیں؟
کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ نے کسی سے حال پوچھا ۔ اس نے کہا کہ اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کے ذمہ پانچ سو درہم کا قرضہ ہے اور وہ عیال دار بھی ہے ؟ یہ سن کر محمد بن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ گھر تشریف لے گئے ۔ ہزار درہم لا کر اسے دے کر فرمایا کہ پانچ سو کا قرض ادا کر اور باقی پانچ سو اپنے اہل و عیال پر خرچ کر۔اس کے بعد پھر کسی سے حال نہیں پوچھا کرتے تھے کہ مباد اوہ اپنا ایسا حال بتائے کہ جس کی اصلاح ان کے ذمہ واجب ہو جائے ۔
چار چیزوں کا شکر :حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر صبح کرنے والے پر چار چیزوں کا شکر ادا کرنا واجب ہے ۔ پہلا تو بطور شکریہ کہے :’’سب تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے میرے دل کو نور ہدایت سے منور فرمایا اور مجھے اہل ایمان میں رکھا اور گمراہ نہیں کیا ۔‘‘
دوسرا شکریوں کرے :’’تمام تعریفیں اس ذات کیلئے ہیں جس نے مجھے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا امتی بنایا ۔‘‘
تیسرا شکر یہ کرے:’’اس ذات کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے میرا رزق کسی اور کے قبضہ میں نہیں دیا ۔‘‘
اور چوتھا شکریوں کرے:’’سب تعریفیں اس اﷲ کی ہیں جس نے میرے عیبوں کی پردہ پوشی فرمائی۔‘‘
چار چیزوں کو جاننا ضروری ہے :حضرت شقیق بن ابراہیم رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اگر دو سو برس تک زندہ رہے اور ان چار چیزوں کو نہ جان سکے تو کوئی چیز بھی اس سے زیادہ دوزخ کو سزاوار نہیں:ایک اﷲ تعالیٰ کی معرفت، دوسرے اﷲ تعالیٰ کے عمل کی معرفت، تیسرے اپنے نفس کی معرفت، چوتھے اپنے اور اپنے اﷲ تعالیٰ کے دشمن کی معرفت۔ اﷲ کی معرفت تو یہ ہے کہ ظاہر و پوشیدہ میں اسی کا فیضان سمجھے کہ کوئی اس کے سوا نہ عطا کرنے والا ہے اور نہ روکنے والا ۔ اﷲ کے عمل کی معرفت یہ ہے کہ یہ یقین حاصل ہو کہ اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کی رضا کیلئے ہو ۔ اپنے نفس کی معرفت یہ ہے کہ اپنا ضعف پہچانے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرما دیا ہے یہ اسے ذرا بھی رد نہیں کر سکتا ۔ الغرض قسمت خدا وندی پر راضی رہے ۔ اﷲ کے اور اپنے دشمنوں کی معرفت یہ ہے کہ اسے شر اور برائی کی اصل جڑ سمجھے اور اس کا علاج معرفت خدا وندی کے ذریعہ سے کرے حتیٰ کہ اس کی قوت کمزور پڑ جائے۔
دس لازم چیزیں:کہتے ہیں کہ ہر روز ابن آدم پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دس چیزیں لازم ہوتی ہیں : اول یہ کہ اٹھتے وقت اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرے ۔ ’’یعنی اٹھتے وقت اپنے رب کی تسبیح اور حمد کیجئے۔‘‘اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے’’اے ایمان والو! تم اﷲ تعالیٰ کو خوب کثرت سے یاد کرو اور صبح اور شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘
دوسری چیز پردہ کے بدن کو چھپانا ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اے اولاد آدم ! مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔‘‘
اور زینت کا ادنیٰ درجہ ستر عورت ہے ۔تیسری چیز اپنے وقت پر اچھی طرح وضو کرنا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :’’‘‘اے ایمان والو! جب تم اٹھو نماز کو تو دھولو اپنے منہ او رہاتھ کہنیوں تک اور مل لو اپنے سر کو اور پاؤں ٹخنوں تک ۔‘‘
چوتھی بات اپنے وقت پر نماز اچھی طرح سے ادا کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :’’یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے ۔‘‘
یعنی خاص خاص اوقات میں مقرر کردہ فریضہ ہے ۔پانچویں یہ کہ رزق کے وعدہ میں اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اور کوئی جاندار روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اﷲ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو۔‘‘
چھٹی چیز یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا پر قناعت کرے اور اس پر راضی رہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’دینوی زندگی میں انکی روزی ہم نے تقسیم کر رکھی ہے ۔‘‘ساتویں یہ کہ اﷲ تعالیٰ پر توکل کرے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور اس زندہ پر توکل رکھیے جو کبھی نہیں مرے گا۔‘‘اور دوسرے مقام پر ’’اور اﷲ تعالیٰ پر نظر رکھو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔‘‘
آٹھویں اﷲ تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم پر صبر کرنا ۔قرآن کریم میں فرمایا :’’اور اپنے رب کی تجویز پر صبر کریں۔‘‘اور دوسرے مقام پر فرمایا :’’اے ایمان والو! خودصبر کرو اور مقابلہ میں صبر کرو‘‘نویں یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کیا کرو ۔ حکم خدا وندی ہے :’’‘‘اور اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا شکر کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔اور اولین نعمت صحت جسمانی ہے اور سب سے بڑی نعمت دین اسلام کی نعمت ہے گو نعمتیں بے حدو بے شمار ہیں ، جیسا کہ ارشاد ہے :’’اور اگر تم اﷲ کی نعمتوں کو گننے لگو تو نہ گن سکو۔‘‘اور دسویں چیز اکل حلال ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ہم نے جو نفیس چیزیں تم کو دی ہیں ان کو کھاؤ۔‘‘اس سے مراد رزق حلال ہے ۔
ﷲ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ
وہ ہمیں اپنی صبح و شام اپنے احکامات کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
قرآن مجیداورسائنس
سائنس میں بنیادی اہمیت کے علوم دوہیں جن پرٹکنالوجی یا(قرآن کی اصطلاح میں)تسخیرکامدارہے اوروہ ہیں علم کیمیااورطبیعات ۔ جدید سائنس کے ان بنیادی پہلوؤں کی طرف قرآن مجیدمیں بارہا توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔بلکہ یہ کہاجاسکتاہے کہ سائنسی ایجادات واختراعات کاداعی اول ،اسلام ہے۔اوریہی قرآن مجیدہے جس نے اکتشافات وایجادات کی راہیں کھولی ہیں۔چنانچہ اس نے ان لوگوں کی تعریف کی جوزمین وآسمان کی تخلیق ،رات اوردن کے تغیرات ،سمندرکے منافع،ہوااوربادلوں کی تسخیراورخدائے تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام پرغورکرکے اپنے رب کو پہچانتے ہیں۔فرمان خداوندی ہے ۔مفہوم ’’بیشک زمین وآسمان کے پیداکرنے ،رات اوردن کے بدلنے ،سمندرمیں کشتیوں کے چلنے ان چیزوں کی وجہ سے جولوگوں کوفائدہ پہونچاتی ہیں اورجوپانی اللہ نے آسمان سے اتاراجس کی وجہ سے زمین کوزندگی ملتی ہے ،اس زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد،ہواؤں کے چلنے اوربادلوں کے آسمان وزمین کے درمیان مسخرہونے میں بہت ساری نشانیاں ہیں ،ان لوگوں کیلئے جوعقل والے ہیں‘‘۔(پ۲،سورہ بقرہ آیت نمبر۱۶۴)یہ آیت حیوانات ،جمادات ،فلکیات ،موسمیات اوران کے نظاموں سے متعلق نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی ہدایت دیتی ہے ،اکتشافات وایجادات کی راہیں کھولتی ہے اوراس طرح کے کام کرنے والو ں کو’’عقلمند‘‘کی سند عطاکرتی ہے ۔ان ہی نئی نئی معلومات ،ایجادات واکتشافات کانام تو سائنس ہے گویاسائنسی ایجادات واختراعات کاداعی اول ،قرآن ہے ۔
قرآن مجید نے ہمیں دوسرے مقامات پربھی مظاہرکائنات اوراس کی مشنری پرغورکرکے مختلف علوم ومسائل میں ڈوب کرطرح طرح کی صنعتو ں کووجود میں لانے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
مفہوم’’اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے سمندر کومسخرکیاتاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤاورتم اس سے نکالتے رہوزیورجس کوتم پہنتے ہواورتم دیکھتے ہو کشتیوں کوتاکہ تم اللہ کے فضل کو تلاش کرواورشکراداکرو۔(پ۱۴سورہ نحل آیت نمبر۱۴)
اس آیت کریمہ میں سمندرکوتابعدار بتایاگیاہے اورظاہرہے کہ اس مقصد کاحصول بغیرکشتی ،جہاز اورسمندری بیڑابنائے حاصل نہیں ہوسکتا،پھرآگے تازہ گوشت حاصل کرنے اورسمندرسے موتی نکالنے کی ہدایت دی ہے جس کے لئے مختلف قسم کے اوزاربھی بنائے جانے ضروری ہیں ۔اس طرح آیت مذکورہ میں کئی صنعتوں کے حصول کی تعلیم پوشیدہ ہے جس کے لئے بہت سی فنی تجربات کی ضرورت پڑتی ہے اوران ہی فنی معلومات واکتشافات وایجادات کانام سائنس ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید نے انسان کو یہ حکم دیاہے کہ وہ علم اسماء کے رموز ودقائق اوردست تسخیرکی قوت سے مخفی نعمتوں کومنظر عام پرلائے ۔اسی کی طرف اشارہ ہے اس فرمان میں’’
’’اللہ نے زمین وآسمان کوپیداکیااورآسمان سے تمہارے فائدے کے لئے پانی اتاراپھراس کے ذریعہ تمہارے کھانے کے لئے رزق نکالا(پ۱۲سورہ ابراہیم آیت نمبر۳۲) نیز فرمایا’’کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمہارے لئے زمین وآسمان کی تمام چیزوں کو مسخرکردیااورپھیلادیاتم پراپنی نعمتوں کوجوظاہر بھی ہیں اورمخفی بھی ‘‘۔(پ۲۱رکوع نمبر۱۱آیت نمبر۲۰)
ان آیات میں جن نعمتوں کی طرف انسانی ذہن کو متوجہ کیاگیاہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے آج بھی بجلی اوربھاپ سے چلنے والی ہزاروں قسم کی مشینوں ، تمدنی ضروریات ،اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والی جدید مشینوں،طب جدید میں طرح طرح کے آلات کی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں اورظاہر ہوتی رہیں گی ،قرآن کریم کادعویٰ ہے ’’وہ پیداکرتارہے گاان چیزوں کوجن کوتم نہیں جانتے ‘‘(نحل پارہ ۱۴)۔اس آیت کوسامنے رکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ دنیاکی جس چیزکی بھی ایجادہو،نہایت ہی بلیغ اس آیت کریمہ میں ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔
اسی طرح اس آیت’’اوران کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ انسان کوبھری ہوئی کشتی میں سوارکیااورہم نے پیداکیااس جیسی اورچیزیں جس پروہ سوارہوتے ہیں‘‘۔(سورہ یسٓ پارہ۲۳) میں قیامت تک ظاہرہونے والی نئی نئی سواریاں ،ٹرین ،ہوائی جہاز،نقل وحمل کے دیگر ذرائع،وغیرہ سب شامل ہیں۔اس طرح قرآن کریم میں سائنسی علوم کی طرف متوجہ کرنے کی باربار کوشش کی گئی ہے ۔اوراس کی ترغیب دی گئی ہے ۔اسی طرح رحم مادرمیں بچے کی تخلیق اوراس کی نشو ونماسے متعلق کئی جگہوں پرجواہم انکشافات ’’الٹراساؤنڈ وغیرہ مشینوں کے سامنے آنے سے پہلے‘‘ کئے گئے ہیں،ان کے سامنے عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے ۔ساتھ ہی اس نے ایسے انکشافات بھی کئے جن کاحتمی علم کسی کونہ ہوسکتاتھا۔مثلا آسمان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا۔مفہوم’’پھراللہ تعالی ٰآسمان کی طرف متوجہ ہوااس حال میں کہ آسمان دھواں تھا‘‘۔(پ۲۴سورہ حمٓ السجدہ آیت نمبر۱۱)معلوم ہواکہ سائنس اسلام کی ہی دین ہے ،ورنہ قرآن کے نزول سے پہلے سائنس نے ترقی نہیں کی اوراسے کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی تھی جیسے ہی اسلام آیا،دنیا کوایک عظیم نعمت ،قطعی علم کے ذریعہ ملی جس سے ایجادات کی بھرمارلگ گئی۔
قرآن مجید سائنس کے تابع نہیں
یہ حقیقت بھی ساتھ ساتھ سامنے رہنی چاہئے کہ اسلام اورقرآن ،سائنس کے تابع نہیں ہیں بلکہ سائنسی تعلیمات، قرآنی نظریات کے تابع ہیں۔اگرکوئی سائنسی نظریہ، اسلامی نظریہ سے ٹکراتاہوانظرآئے تو قرآن کے فرمان کواس کے تابع نہیں کیاجاسکتا۔سائنس کے کئی نظریات بدلتے رہے ہیں،جب کہ قرآن کے نظریات،آج بھی وہی ہیں جس میں قیامت تک تغیروتبدل کاکوئی امکان نہیں۔پھریہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ قرآن مجید ،سائنس کی کتاب نہیں ،طب کی کتاب نہیں،فلسفہ ،جغرافیہ کی کتاب نہیں ،بلکہ وہ صرف اورصرف ’’کتاب ہدایت ‘‘ہے جس کے نزول کامقصد سائنسی اکتشافات اورتاریخی معلوما ت کی فراہمی نہیں،صرف اور صرف بندوں کو اس کے معبود حقیقی اورخالق حقیقی سے جوڑنااورانسانیت کے ذہن میں تصورآخرت اوراحساس جوابدہی کوپیداکرناہے۔مفہوم ’’یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کربیان کی گئی ہیں جاننے والوں کے لئے ۔خوش خبری دینے والی ہے اورڈرانے والی ہے ‘‘۔(حمٓ السجدہ پ۲۴)پھراہل ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ’’بن دیکھے ایمان لائے ‘‘۔مفہوم ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں،ہدایت ہے ان متقین کے لئے جوایمان لاتے ہیں غیب پر‘‘ ۔(بقرہ پ۱آیت۲)یہ دونوں اوراسی مفہوم کی مزیدآیتیں ،اسی حقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ’’ ایمان ‘‘ ،مشاہدات،تجربات اورریسرچ کے بغیر،خدائی فرمان کو’’مان لینے ‘‘کانام ہے اورقرآن اوراسلام کامقصد ، صراط مستقیم کی طرف صحیح راہنمائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پرقرآن مجید میں کوئی تاریخی واقعہ بیان کیاگیاہے وہاں یاتوبہت اختصار سے کام لیاگیاہے یاپھرغیرمرتب انداز میں،اسی طرح کہیں واقعہ کے کسی ایک دوجزئیہ کو بیان کیاگیاہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآن ،تاریخ کی کتاب نہیں ہے کہ اس میں موجودتاریخی واقعات کواپنی تاریخی معلومات پر،پرکھاجائے اسی طرح قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ ہرسائنسی تحقیق کوقرآن مجید میں تلاش کیاجائے اورسائنسی کسوٹی پراس کوپرکھاجائے ۔یہ توقرآن کااعجازہے کہ ایک امی ﷺکی زبان پرجاری ہونے والایہ کلام تمام علوم کاجامع ہے جوپیغمبراسلام اورقرآن کامعجزہ ہے۔ پھرسائنسی مضامین وغیرہ صرف ’’اثبات حق اورابطال باطل ‘‘کے دلائل کے طورپربیان کئے گئے ہیں۔ان ہی بنیادی باتوں سے ناواقفیت ،یاعدم توجہ کی بنیاد پریہ وبا،عام ہوگئی ہے کہ جوبھی نئی تحقیق سامنے آئے ،اسے قرآن اوراسلامی تعلیمات میں تلاش کیاجاتاہے ۔یازبردستی اسلامی مزاج اورروح کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اوراگریہ نہ ہوسکے تواس وقت اسلامی تعلیمات کوسائنس اورجدید تحقیقات کے تابع کیاجاتاہے ۔ اس سمت میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
قرآن مجید نے ہمیں دوسرے مقامات پربھی مظاہرکائنات اوراس کی مشنری پرغورکرکے مختلف علوم ومسائل میں ڈوب کرطرح طرح کی صنعتو ں کووجود میں لانے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
مفہوم’’اللہ ہی کی وہ ذات ہے جس نے سمندر کومسخرکیاتاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤاورتم اس سے نکالتے رہوزیورجس کوتم پہنتے ہواورتم دیکھتے ہو کشتیوں کوتاکہ تم اللہ کے فضل کو تلاش کرواورشکراداکرو۔(پ۱۴سورہ نحل آیت نمبر۱۴)
اس آیت کریمہ میں سمندرکوتابعدار بتایاگیاہے اورظاہرہے کہ اس مقصد کاحصول بغیرکشتی ،جہاز اورسمندری بیڑابنائے حاصل نہیں ہوسکتا،پھرآگے تازہ گوشت حاصل کرنے اورسمندرسے موتی نکالنے کی ہدایت دی ہے جس کے لئے مختلف قسم کے اوزاربھی بنائے جانے ضروری ہیں ۔اس طرح آیت مذکورہ میں کئی صنعتوں کے حصول کی تعلیم پوشیدہ ہے جس کے لئے بہت سی فنی تجربات کی ضرورت پڑتی ہے اوران ہی فنی معلومات واکتشافات وایجادات کانام سائنس ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید نے انسان کو یہ حکم دیاہے کہ وہ علم اسماء کے رموز ودقائق اوردست تسخیرکی قوت سے مخفی نعمتوں کومنظر عام پرلائے ۔اسی کی طرف اشارہ ہے اس فرمان میں’’
’’اللہ نے زمین وآسمان کوپیداکیااورآسمان سے تمہارے فائدے کے لئے پانی اتاراپھراس کے ذریعہ تمہارے کھانے کے لئے رزق نکالا(پ۱۲سورہ ابراہیم آیت نمبر۳۲) نیز فرمایا’’کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمہارے لئے زمین وآسمان کی تمام چیزوں کو مسخرکردیااورپھیلادیاتم پراپنی نعمتوں کوجوظاہر بھی ہیں اورمخفی بھی ‘‘۔(پ۲۱رکوع نمبر۱۱آیت نمبر۲۰)
ان آیات میں جن نعمتوں کی طرف انسانی ذہن کو متوجہ کیاگیاہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے آج بھی بجلی اوربھاپ سے چلنے والی ہزاروں قسم کی مشینوں ، تمدنی ضروریات ،اسی طرح زراعت میں استعمال ہونے والی جدید مشینوں،طب جدید میں طرح طرح کے آلات کی شکل میں ظاہر ہورہی ہیں اورظاہر ہوتی رہیں گی ،قرآن کریم کادعویٰ ہے ’’وہ پیداکرتارہے گاان چیزوں کوجن کوتم نہیں جانتے ‘‘(نحل پارہ ۱۴)۔اس آیت کوسامنے رکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ دنیاکی جس چیزکی بھی ایجادہو،نہایت ہی بلیغ اس آیت کریمہ میں ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔
اسی طرح اس آیت’’اوران کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ انسان کوبھری ہوئی کشتی میں سوارکیااورہم نے پیداکیااس جیسی اورچیزیں جس پروہ سوارہوتے ہیں‘‘۔(سورہ یسٓ پارہ۲۳) میں قیامت تک ظاہرہونے والی نئی نئی سواریاں ،ٹرین ،ہوائی جہاز،نقل وحمل کے دیگر ذرائع،وغیرہ سب شامل ہیں۔اس طرح قرآن کریم میں سائنسی علوم کی طرف متوجہ کرنے کی باربار کوشش کی گئی ہے ۔اوراس کی ترغیب دی گئی ہے ۔اسی طرح رحم مادرمیں بچے کی تخلیق اوراس کی نشو ونماسے متعلق کئی جگہوں پرجواہم انکشافات ’’الٹراساؤنڈ وغیرہ مشینوں کے سامنے آنے سے پہلے‘‘ کئے گئے ہیں،ان کے سامنے عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے ۔ساتھ ہی اس نے ایسے انکشافات بھی کئے جن کاحتمی علم کسی کونہ ہوسکتاتھا۔مثلا آسمان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا۔مفہوم’’پھراللہ تعالی ٰآسمان کی طرف متوجہ ہوااس حال میں کہ آسمان دھواں تھا‘‘۔(پ۲۴سورہ حمٓ السجدہ آیت نمبر۱۱)معلوم ہواکہ سائنس اسلام کی ہی دین ہے ،ورنہ قرآن کے نزول سے پہلے سائنس نے ترقی نہیں کی اوراسے کوئی خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی تھی جیسے ہی اسلام آیا،دنیا کوایک عظیم نعمت ،قطعی علم کے ذریعہ ملی جس سے ایجادات کی بھرمارلگ گئی۔
قرآن مجید سائنس کے تابع نہیں
یہ حقیقت بھی ساتھ ساتھ سامنے رہنی چاہئے کہ اسلام اورقرآن ،سائنس کے تابع نہیں ہیں بلکہ سائنسی تعلیمات، قرآنی نظریات کے تابع ہیں۔اگرکوئی سائنسی نظریہ، اسلامی نظریہ سے ٹکراتاہوانظرآئے تو قرآن کے فرمان کواس کے تابع نہیں کیاجاسکتا۔سائنس کے کئی نظریات بدلتے رہے ہیں،جب کہ قرآن کے نظریات،آج بھی وہی ہیں جس میں قیامت تک تغیروتبدل کاکوئی امکان نہیں۔پھریہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ قرآن مجید ،سائنس کی کتاب نہیں ،طب کی کتاب نہیں،فلسفہ ،جغرافیہ کی کتاب نہیں ،بلکہ وہ صرف اورصرف ’’کتاب ہدایت ‘‘ہے جس کے نزول کامقصد سائنسی اکتشافات اورتاریخی معلوما ت کی فراہمی نہیں،صرف اور صرف بندوں کو اس کے معبود حقیقی اورخالق حقیقی سے جوڑنااورانسانیت کے ذہن میں تصورآخرت اوراحساس جوابدہی کوپیداکرناہے۔مفہوم ’’یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کربیان کی گئی ہیں جاننے والوں کے لئے ۔خوش خبری دینے والی ہے اورڈرانے والی ہے ‘‘۔(حمٓ السجدہ پ۲۴)پھراہل ایمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ’’بن دیکھے ایمان لائے ‘‘۔مفہوم ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں،ہدایت ہے ان متقین کے لئے جوایمان لاتے ہیں غیب پر‘‘ ۔(بقرہ پ۱آیت۲)یہ دونوں اوراسی مفہوم کی مزیدآیتیں ،اسی حقیقت کوبیان کرتی ہیں کہ’’ ایمان ‘‘ ،مشاہدات،تجربات اورریسرچ کے بغیر،خدائی فرمان کو’’مان لینے ‘‘کانام ہے اورقرآن اوراسلام کامقصد ، صراط مستقیم کی طرف صحیح راہنمائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پرقرآن مجید میں کوئی تاریخی واقعہ بیان کیاگیاہے وہاں یاتوبہت اختصار سے کام لیاگیاہے یاپھرغیرمرتب انداز میں،اسی طرح کہیں واقعہ کے کسی ایک دوجزئیہ کو بیان کیاگیاہے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قرآن ،تاریخ کی کتاب نہیں ہے کہ اس میں موجودتاریخی واقعات کواپنی تاریخی معلومات پر،پرکھاجائے اسی طرح قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے کہ ہرسائنسی تحقیق کوقرآن مجید میں تلاش کیاجائے اورسائنسی کسوٹی پراس کوپرکھاجائے ۔یہ توقرآن کااعجازہے کہ ایک امی ﷺکی زبان پرجاری ہونے والایہ کلام تمام علوم کاجامع ہے جوپیغمبراسلام اورقرآن کامعجزہ ہے۔ پھرسائنسی مضامین وغیرہ صرف ’’اثبات حق اورابطال باطل ‘‘کے دلائل کے طورپربیان کئے گئے ہیں۔ان ہی بنیادی باتوں سے ناواقفیت ،یاعدم توجہ کی بنیاد پریہ وبا،عام ہوگئی ہے کہ جوبھی نئی تحقیق سامنے آئے ،اسے قرآن اوراسلامی تعلیمات میں تلاش کیاجاتاہے ۔یازبردستی اسلامی مزاج اورروح کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اوراگریہ نہ ہوسکے تواس وقت اسلامی تعلیمات کوسائنس اورجدید تحقیقات کے تابع کیاجاتاہے ۔ اس سمت میں خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
جنت اور اس کی نعمتیں
اللہ تعالیٰ نے نیک اور مومن انسانوں کیلئے جنت جیسی عظیم نعمت بنائی ہے مگر یہ نعمت خاتمہ بالایمان ہو اور اعمال صالحہ کیے ہوں تو نصیب ہو تی ہے۔ جنت ہے مثال مقام ہے اور اس کی نعمتیں بھی انسانی ذہن سے وراء ہیں ۔اس مضمون میں ہم نے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر کیا ہے تاکہ مومنین میں جذبۂ اعمال صالحہ پروان چڑھے ۔ یہ مضمون تنبیۃ الغافلین سے ماخذ ہے جس کے مصنت فقیہ ابو اللیث سمرقندی رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔
جنت کس طرح بنائی گئی: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! جنت کس سے بنائی گئی ؟ ارشاد فرمایا پانی سے ۔ہم نے عرض کیا ذرا اس کی تعمیر کی تفصیل سے ہمیں مطلع فرمائیے۔ ارشاد فرمایا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے اور گارا کستوری کا ، اس کی مٹی زعفران اور اس کے سنگر یزے یا قوت اور موتی کے ہیں ۔جو اس میں داخل ہو گا ہمیشہ کے لئے نعمتوں میں ہو گا۔ کبھی تنگی نہ دیکھے گا اور نہ اسے موت آئے گی ۔نہ کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ جوانی کبھی ڈھلے گی ۔
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی: پھر حضور اکرم ﷺ نے ارشیاد فرمایا کہ تین قسم کے آدمی ہیں جن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی :عادل حکمران ،روز ہ دار جب کہ افطار کرنے لگے اور مظلوم کی دعا کو سب پر دوں سے اوپر اٹھا لیا جاتا ہے اور رب ذوالجلال فرماتا ہے مجھے اپنے جلال اور عزت کی قسم کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو کچھ عرصہ بعد ہی سہی ۔
جنت کی نعمتیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک ممدود کی آیت سے یہ مضمون سمجھ لو کہ وہاں کا سایہ بڑا لمبا ہو گا اور جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کی خیالی پرواز وہاں تک پہنچ سکی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک حور ہے جس کا نام لائنہ ہے جو مشک عنبر ،کافور اور زعفران کے عناصر اربعہ سے بنی ہے ۔ اس کا خمیر نہر حیوان کے پانی سے تیار کیا گیا ۔ رب عزیز نے اسے کن فرمایا۔ وہ وجود میں آئی ۔تمام حوریں اس کی مشتاق ہیں ۔ایک بار سمندر میں تھوک دے تو اس کا کڑوا پانی میٹھا ہو جائے۔ اس کے سینے پر لکھا ہوا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میرے جیسی حور اسے مل جائے تو اسے میرے رب کی اطاعت میں لگنا چاہیے ۔
جنت کی زمین: حضرت مجاہد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت کی زمین چاندی کی اور مٹی کستوری کی ہے ۔اس کے درختوں کے تنے چاندی کے ہیں اور شاخیں زبر جد اور موتیوں کی اور پتے اور پھل اس سے نیچے ہوں گے ۔ جو کوئی کھڑا ہو کر کھانا چاہے تو دقت نہیں ،جو بیٹھ کر کھانا چاہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں اور جو لیٹ کر کھانا چاہے تو اسے بھی کچھ تکلف نہ ہو گا۔ پھر آپ نے تلاوت فرمائی :’’یعنی اس کے پھل قریب ہوں گے حتیٰ کہ کھڑا اور بیٹھنے والا با ٓسانی لے سکے گا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم ! جس نے حضرت محمد ﷺ پر کتاب نازل فرمائی ہے کہ اہل جنت حسن و جمال میں یوں بڑھتے رہیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں بڑھاپے کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔ حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :’’جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو ایک پکارنے والا ندا دے گا کہ اے جنت والو! اﷲ تعالیٰ کے ہاں تمہارے ساتھ کیا ہواوعدہ باقی ہے جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے ۔ یہ کہیں گے وہ کیا وعدہ ہے ،کیا اس نے ہمارے میزانِ عمل کو بھاری نہیں فرمایا اور چہروں کو سفید نہیں کیا اور جنت میں داخل نہیں کیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں بخشی؟ فرمایا پھر پردہ اٹھا دیا جائے گا اور وہ جمال ذات دیدار سے بہرہ ور ہوں گے ۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اہل جنت کو حاصل ہونے والی نعمتوں میں سے کوئی نعمت بھی دیدار خدا وندی سے زیادہ محبوب نہ ہو گی ۔‘‘
یوم المزید: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک صاف و شفاف آئینہ لائے جس میں ایک سیاہ نکتہ تھا ۔آپ نے سوال کیا جبرائیل ! یہ سفید شیشہ کیا ہے ؟ عرض کیا یہ جمعہ ہے اور یہ سیاہ نکتہ ساعت ہے جو جمعہ میں آتی ہے اور یہ فضیلت صرف آپ کو اور آپ کی امت کو ہی نصیب ہوئی ہے ۔دوسر ے لوگ یعنی یہود و نصاریٰ و غیرہ وہ سب اس میں آپ کے پیچھے ہیں ۔اس دن میں ایک ساعت اور گھڑی ایسی ہے کہ جس خوش نصیب مومن کو وہ مل جائے تو جس بھلائی کی بھی اﷲ تعالیٰ سے درخواست کرے وہ قبول ہوتی ہے اور جس برائی سے بھی پناہ مانگے اسے عطا ہوتی ہے اور یہ دن ہمارے ہاں یوم المزید کہلاتا ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یوم المزید کیا ہے ؟عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت الفردوس میں ایک وادی بنائی ہے جس میں مشک کا ایک ٹیلہ ہے ۔جب جمعہ کا دن ہو گا تو اس کے پاس منبر بچھائے جائیں گے جن پر انبیاء علیہم السلام تشریف فرما ہوں گے ۔کچھ منبر سونے کے ہوں گے جن پر یاقوت و زبرجد کا جڑاؤ ہو گا ۔ان پر صدیقین، شہداء ،صالحین بیٹھیں گے اور بالا خانوں والے بھی اتر آئیں گے اور ان حضرات کے پیچھے اس ٹیلہ پر بیٹھ جائیں گے اور سب اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں گے ۔اس کی حمد و ثناء کہیں گے ۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے مجھ سے کچھ مانگو ۔وہ عرض کریں گے ہم آپ کی رضا چاہتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں تم سے راضی ہوں کہ اسی رضا نے تمہیں میرے گھر میں ٹھکانا دیا اور میرا اکرام تمہیں نصیب فرمایا ،پھر ایک تجلی ہو گی اور ان سب حضرات کو جمال جہاں آرا کا دیدار نصیب ہو گا ۔اس لحاظ سے اہل جنت کو جمعہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی محبوب نہ ہو گا کہ جس میں انہیں مزید در مزید اعزاز و اکرام نصیب ہو گا۔
اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور دیدار: ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے میرے اولیاء کو کچھ کھلاؤ ۔چنانچہ کئی طرح کے کھانے لائے جائیں گے اور وہ ہر لقمہ میں پہلے سے الگ لذت پائیں گے ۔کھانے سے فراغت پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میرے بندوں کو کچھ پلاؤ تو کئی طرح کے مشروبات لائے جائیں گے اور ہر سانس پر پہلے سے جدا ذائقہ اور لذت پائیں گے ۔اس سے فارغ ہو ں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں ، میں نے اپنا وعدہ جو تمہارے ساتھ کیا تھا سچا کر دیا ہے ۔ سو اب مجھ سے کچھ مانگو میں عطا کروں گا۔اہل جنت عرض کریں گے ۔ اے اﷲ ! ہم آپ کی رضا مندی چاہتے ہیں اور اس سوال و جواب کا دو دفعہ تکرار ہو گا تواﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں یقینا تم سے راضی ہو گیا اور میرے ہاں اس سے بھی مزید ہے ۔آج میں تمہیں وہ اکرام بخشوں گا جو سب انعامات سے بڑھ کر ہو گا ۔ چنانچہ پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جس قدر اﷲ تعالیٰ کو منظور ہو گا خوب خوب نعمت دیدار حاصل کریں گے پھر اس کی بارگاہ جمال میں سجدہ ریز ہوں گے اور جب تک خدا کو منظور ہو گا سجدہ میں رہیں گے ۔پھر ارشاد پاک ہو گا اپنے سر اوپر اٹھا لو ! یہ عبادت کا موقع نہیں ہے ۔پس وہ جنت کے تمام انعامات کو بھول جائیں گے ۔پس دیدار کی ایک جھلک انہیں ان تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب لگے گی ۔ واپس لوٹیں گے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا مشک کے سفید ٹیلہ پر چلے گی اور ان کے سروں پر اور ان کے گھوڑوں کی پیشانیوں پر اسکی بکھیر ڈال دے گی ۔ اپنے اہل خانہ میں واپس آئیں گے تو ان کی بیویاں انکے حسن و جمال کا پہلے کی نسبت اضافہ دیکھ کر کہیں گی کہ تم تو پہلے سے کہیں زیادہ حسین بن کر آئے ہو۔
فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پردہ ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں پر جو پردہ تھا کہ وہ اس کی وجہ سے دیکھ نہ سکتے تھے وہ رکاوٹ دور کر دی جائے گی اور بعض نے اس کی طرف دیکھنے کا یہ مطلب کیا ہے کہ جنتی باری تعالیٰ کے اس اکرام کو دیکھیں گے جو اس سے پہلے نہ دیکھا ہو گا اور اکثر اہل علم ظاہری معنی ہی مراد لیتے ہیں کہ وہ باری تعالیٰ کو بلا کیفیت و بلا تشبیہ دیکھیں گے جیسے کہ آج دنیا میں اسے بلا تشبیہ پہچانتے ہیں۔
اہل جنت کا قد و قامت: حضرت عکرمہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل جنت مردیا عورت 33برس کے نوجوانوں کی طرح ہوں گے ۔اپنے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے موافق ساٹھ ہاتھ ہوں گے ۔جوان ہوں گے ،بدن پر بال نہ ہوں گے اور نہ داڑھی ہو گی۔ آنکھیں سرمگیں ہو ں گی۔ ان پر ستر جوڑے ہوں گے ۔ ہر جوڑا ہر آن ستر رنگ بدلے گا۔ اپنا چہرہ بیوی کے آئینہ جیسے شفاف چہرے میں دیکھ لے گا۔ ایسے ہی اس کے سینے اور پنڈلیوں کا حال ہو گا اور ان کی بیویاں خودان کے شفاف چہروں ، سینوں اور پنڈلیوں میں اپنے چہرے دیکھ سکیں گی۔ انہیں تھوک بلغم وغیرہ نہ آئے گی۔ اہل جنت ہر قسم کی کراہت اور نجاست کی چیزوں سے پاک صاف ہوں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جنتی عورت اگر اپنی ہتھیلی آسمان سے نیچے کی طرف کر دے تو زمین و آسمان کا درمیان سب منور ہو جائے ۔
جنتیوں کا کھانا اور اس کا ہضم ہونا: حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کا ایک آدمی حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ۔ کہنے لگا اے ابو القاسم! کیا آپ فرماتے ہیں کہ اہل جنت کھاتے پیتے ہیں ؟فرمایا ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! وہاں کے ایک آدمی کو سو آدمیوں کے کھانے پینے اور جماع کی قوت ملے گی۔ وہ کہنے لگا کہ جو کھائے پیئے گا، اس کو فراغت کی حاجت بھی ہو گی اور جنت تو پاکیزہ جگہ ہے جہاں نجاست کا نام نہیں ۔ارشاد فرمایا کہ ان کو کستوری جیسا خوشبودار پسینہ آئے گا اور یہی ان کی حاجت سے فراغت ہو گی۔
شجر طوبیٰ: حضرت معتب بن سمی (طوبیٰ لھم و حسن ماب)کے متعلق فرماتے ہیں کہ طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے ۔جنت میں جو بھی مکان اور رہائش گاہ ہے وہیں پر اس کا سایہ ہے ۔ اس کی ایک ایک شاخ ایسی ہو گی کہ اس میں قسم قسم کے پھل لگے ہوں گے ۔ ان پر بہت بڑے بڑے پرندے بیٹھتے ہوں گے ۔ جب کوئی شخص کسی پرندہ کی خواہش کرے گا، اسے بلائے گا۔ وہ اس کے دستر خوان پر آموجود ہو گا۔ وہ حسب خواہش اس کا کچھ حصہ کھائے گا اور یہ پھر پرندہ بن کر اُڑ جائے گا۔
جنتیوں کا حلیہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، وہ چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے ۔ ان کے بعد ایسے ایسے ہوں گے جیسے کوئی ستارہ آسمان کے تمام ستاروں سے زیادہ چمکدار ہو۔ پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ ہوں گے ۔ انہیں پیشاب یا پاخانہ کی حاجت نہ ہو گی اور نہ تھوک اور بلغم وغیرہ آئے گا۔ ان کیلئے سونے کی کنگھیاں اور عود کی انگیٹھیاں ہوں گی ۔ پسینہ کستوری جیسا ہو گا۔ سب کے اخلاق شخص واحد کی طرح ایک ہی جیسے ہوں گے اور اپنے ابا حضرت آدم علیہ السلام کے قد کے موافق ساٹھ ہاتھ لمبے ہوں گے ۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل جنت نوجوانی کے عالم میں ہوں گے ۔ چہروں پر داڑھیاں نہ ہوں گی بلکہ سر کے علاوہ اور آنکھوں کے ابرو اور پلکوں کے سوا باقی بدن پر بغل اور زیر ناف وغیرہ کہیں بال نہ ہوں گے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی لمبائی کے موافق ساٹھ ہاتھ قدہوں گے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لمبائی کے موافقت تینتیس برس کی عمر ، گوراچٹارنگ اور سبز لباس ہو گا۔
جنتیوں کی خوراک اور پوشاک: ایک جنتی اپنے آگے دستر خوان رکھے گا جس پر ایک پرندہ آکر کہے گا اے اﷲ کے ولی ! میں نے سلسبیل کے چشمہ سے سیرابی حاصل کی ہے ۔عرش کے نیچے جنت کے باغات میں چرتا اور فلاں فلاں پھل کھاتا رہا ہوں ۔اس کی ایک جانب کا ذائقہ پکے ہوئے گوشت کا ہو گا ۔ چنانچہ جس قدر مرغوب ہو گا وہ اس سے کھائے گا او ر اس جنتی ولی کے ستر حلے زیب تن ہوں گے ۔ ہر حلہ الگ رنگ کا ہو گا ۔ان کی انگلیوں میں دس دس انگوٹھیاں ہوں گی۔ پہلی انگوٹھی پر سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۔’’تم صحیح سلامت رہو گے اس کی بدولت کہ تم مضبوط رہے۔‘‘کندہ ہو گا۔دوسری پر ’’تم اس میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو۔‘‘ لکھا ہو گا تیسری پر ’’اور یہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے ہوا پنے اعمال کے عوض میں ۔ ‘‘لکھا ہو گا۔ چوتھی پر ’’تمہارے سب غم و افکار دور کر دیئے گئے ۔‘‘ لکھا ہو گا ۔پانچویں پر ’’ہم نے تمہیں زیورات اور جوڑے پہنائے ۔‘‘نقش ہو گا۔ چھٹی پر’’ہم نے حورعین سے تمہارا عقد کر دیا۔‘‘تحریر ہو گا ساتویں پر ’’اور تمہارے لئے ان جنتوں میں وہ نعمتیں ہیں جن کو جی چاہتا ہے اور آنکھیں لذت پاتی ہیں اور تم یہاں پر ہمیشہ رہو گے ۔‘‘لکھا ہو گا آٹھویں پر ’’تمہیں نبیوں اور صدیقوں کی رفاقت نصیب ہوئی۔‘‘لکھا ہو گا۔ نویں پر ’’تم ایسے جو ان بنے ہو جنہیں بڑھا پا نہیں آئے گا۔‘‘لکھا ہو گا اور دسویں انگوٹھی پر ’’تمہیں اس کے پڑوس میں سکونت ملی ہے جو اپنے ہمسایہ کو ایذا نہیں دیتے ۔‘‘نقش ہو گا۔
یہ تھیں جنت کی نعمتیں اور جنت ۔اور یقینا قارئین کا دل تو چاہتا ہے کہ اس جنت میں جائیں اور اس کی نعمتیں پائیں ۔ اس کا طریقہ کار بھی نظر قارئین ہے۔
جنت کی نعمتیں حاصل کرنے کیلئے پانچ چیزوں کی پابندی: حضرت فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اہل جنت والے انعامات کو حاصل کرنا چاہتا ہے ،اسے پانچ چیزوں کی پابندی لازم ہے :پہلی یہ کہ اپنے نفس کو تمام گناہوں سے باز رکھے ۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اور اس نے نفس کو خواہش سے روکا سو جنت اس کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘
دوسری یہ کہ دنیا کی تھوڑی سی مقدار پر راضی ہو جائے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جنت کی قیمت ترک دنیا ہے ۔ تیسری یہ کہ ہر نیک کام کی خواہش رکھے اور طاعت کے کسی کام کو نہ چھوڑے ۔ نا معلوم کون سی طاعت گناہوں کی بخشش اور جنت کے حصول کا سبب بن جائے ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :’’اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے عوض مالک بنا دئیے گئے ۔‘‘اور ایک آیت میں ہے ’’کہ انہیں یہ بدلہ ان کے اعمال کی وجہ سے دیا جائے گا۔‘‘
اور انہیں جو کچھ بھی اعزاز و اکرام ملیں گے وہ طاعت کی بدولت ہی ملیں گے ۔ چوتھی بات یہ کہ نیک لوگوں سے محبت رکھ اور ان کی ہم نشینی اختیار کرے کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی بھی جب بخشش ہو گی تو وہ اپنے بھائیوں اور احباب کی سفارش کرے گا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ باہمی بھائی چارہ خوب پیدا کرو کیونکہ قیامت میں ہر بھائی کو سفارش کا موقعہ ملے گا اور پانچویں چیز یہ ہے کہ بکثرت دعا کیا کرے اور اﷲ تعالیٰ سے جنت کی اور خاتمہ بالخیر کی بہت زیادہ درخواست کرتا رہے ۔ بعض داناؤں کا کہنا ہے کہ ثواب کا یقین رکھتے ہوئے بھی دنیا کی طرف مائل ہونا جہالت ہے اور اعمال کے ثوا ب کو جان لینے کے باوجود ان کے لئے محنت نہ کرنا بے ہمتی اور اپنے کو عاجز بنانا ہے اور جنت میں یقینا راحت و آرام ہے ۔مگر یہ اسی کو ملے گا جس نے دنیا میں اس کیلئے تکالیف اٹھائی ہوں گی ۔ جنت میں غنیٰ اور تونگری ہو گی جو انہیں لوگوں کو ملے گی جنہوں نے بقدرِ ضرورت تھوڑی سی دنیا پر کفایت کی اور فضول اور زائد چیزوں کو چھوڑ دیا۔لہٰذا یہ پانچ کام کرنے والے کو جنت اور جنت کی نعمتیں میسر آئیں گی ۔ آج ہی ہم اپنا محاسبہ کریں کہ کیا پانچ کام ہم میں پائے جاتے ہیں۔
عبرت و بصائر : ایک زاہد کا قصہ منقول ہے کہ وہ روٹی کے بغیر سبزی اور نمک وغیرہ کھالیتے ۔ کسی نے کہا کہ بس آپ اسی پر گزارہ کرے ہیں؟فرمانے لگے میں اپنی دنیا جنت کیلئے بنا رہا ہوں اور تو اسے بیت الخلا کیلئے بناتا ہے ،یعنی تو مرغوب کھانے کھا کے بیت الخلا تک پہنچاتا ہے اور میں جو کچھ بھی کھاتا ہوں وہ اس لئے کہ عبادت و طاعت کیلئے سہارا بنے اور آخرکار جنت تک پہنچ سکوں۔
کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ حمام میں جانے لگے تو حمام والے نے روک دیا اور کہنے لگا کہ اجرت کے بغیر نہیں جا سکتے ۔ آپ روکر کہنے لگے اے اﷲ ! ۔یہ شیاطین اور فساق لوگوں کے آنے کا مقام ہے اور مجھے یہاں مفت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی تو میں انبیاء اور صدیقین کے مقام یعنی جنت میں کیسے داخل ہو سکوں گا۔؟
منقول ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام کی آسمانی تعلیمات اور وحی میں یہ بات ملتی ہے کہ اے ابن آدم ! تو دوزخ کو بھاری قیمت سے خرید تا ہے مگر جنت کو سستے داموں نہیں لیتا ۔ جس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک فاسق آدمی اپنے جیسے فاسقوں کی دعوت کرتا ہے اور اس پر سینکڑوں روپے کا خرچ بھی معمولی سمجھتا ہے تو یہ اس کا دوزخ کا سودا ہے جو بھاری قیمت پر حاصل کیا ۔اگر وہ اﷲ کی رضا کیلئے ایک درہم خرچ کر کے بعض محتاجوں کی دعوت کرنا چاہے تو اسے شاق گزرتا ہے جب کہ یہی اس کیلئے جنت کی قیمت تھی۔
معزز قارئین ! ہمارے اسلاف ہر موقع کو جنت کے حصول کیلئے تصرف میں لاتے۔ اگر ہمیں جنت اور جنت کی نعمتوں سے محبت ہے اور چاہت ہے تو ہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور خاتمہ بالایمان اور جنت نصیب فرمائے ۔آمین
جنت کس طرح بنائی گئی: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! جنت کس سے بنائی گئی ؟ ارشاد فرمایا پانی سے ۔ہم نے عرض کیا ذرا اس کی تعمیر کی تفصیل سے ہمیں مطلع فرمائیے۔ ارشاد فرمایا کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے اور گارا کستوری کا ، اس کی مٹی زعفران اور اس کے سنگر یزے یا قوت اور موتی کے ہیں ۔جو اس میں داخل ہو گا ہمیشہ کے لئے نعمتوں میں ہو گا۔ کبھی تنگی نہ دیکھے گا اور نہ اسے موت آئے گی ۔نہ کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ جوانی کبھی ڈھلے گی ۔
تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی: پھر حضور اکرم ﷺ نے ارشیاد فرمایا کہ تین قسم کے آدمی ہیں جن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی :عادل حکمران ،روز ہ دار جب کہ افطار کرنے لگے اور مظلوم کی دعا کو سب پر دوں سے اوپر اٹھا لیا جاتا ہے اور رب ذوالجلال فرماتا ہے مجھے اپنے جلال اور عزت کی قسم کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو کچھ عرصہ بعد ہی سہی ۔
جنت کی نعمتیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک ممدود کی آیت سے یہ مضمون سمجھ لو کہ وہاں کا سایہ بڑا لمبا ہو گا اور جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کی خیالی پرواز وہاں تک پہنچ سکی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک حور ہے جس کا نام لائنہ ہے جو مشک عنبر ،کافور اور زعفران کے عناصر اربعہ سے بنی ہے ۔ اس کا خمیر نہر حیوان کے پانی سے تیار کیا گیا ۔ رب عزیز نے اسے کن فرمایا۔ وہ وجود میں آئی ۔تمام حوریں اس کی مشتاق ہیں ۔ایک بار سمندر میں تھوک دے تو اس کا کڑوا پانی میٹھا ہو جائے۔ اس کے سینے پر لکھا ہوا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ میرے جیسی حور اسے مل جائے تو اسے میرے رب کی اطاعت میں لگنا چاہیے ۔
جنت کی زمین: حضرت مجاہد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت کی زمین چاندی کی اور مٹی کستوری کی ہے ۔اس کے درختوں کے تنے چاندی کے ہیں اور شاخیں زبر جد اور موتیوں کی اور پتے اور پھل اس سے نیچے ہوں گے ۔ جو کوئی کھڑا ہو کر کھانا چاہے تو دقت نہیں ،جو بیٹھ کر کھانا چاہے تو اسے کوئی تکلیف نہیں اور جو لیٹ کر کھانا چاہے تو اسے بھی کچھ تکلف نہ ہو گا۔ پھر آپ نے تلاوت فرمائی :’’یعنی اس کے پھل قریب ہوں گے حتیٰ کہ کھڑا اور بیٹھنے والا با ٓسانی لے سکے گا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم ! جس نے حضرت محمد ﷺ پر کتاب نازل فرمائی ہے کہ اہل جنت حسن و جمال میں یوں بڑھتے رہیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں بڑھاپے کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔ حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :’’جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو ایک پکارنے والا ندا دے گا کہ اے جنت والو! اﷲ تعالیٰ کے ہاں تمہارے ساتھ کیا ہواوعدہ باقی ہے جسے وہ پورا کرنا چاہتا ہے ۔ یہ کہیں گے وہ کیا وعدہ ہے ،کیا اس نے ہمارے میزانِ عمل کو بھاری نہیں فرمایا اور چہروں کو سفید نہیں کیا اور جنت میں داخل نہیں کیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں بخشی؟ فرمایا پھر پردہ اٹھا دیا جائے گا اور وہ جمال ذات دیدار سے بہرہ ور ہوں گے ۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اہل جنت کو حاصل ہونے والی نعمتوں میں سے کوئی نعمت بھی دیدار خدا وندی سے زیادہ محبوب نہ ہو گی ۔‘‘
یوم المزید: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک صاف و شفاف آئینہ لائے جس میں ایک سیاہ نکتہ تھا ۔آپ نے سوال کیا جبرائیل ! یہ سفید شیشہ کیا ہے ؟ عرض کیا یہ جمعہ ہے اور یہ سیاہ نکتہ ساعت ہے جو جمعہ میں آتی ہے اور یہ فضیلت صرف آپ کو اور آپ کی امت کو ہی نصیب ہوئی ہے ۔دوسر ے لوگ یعنی یہود و نصاریٰ و غیرہ وہ سب اس میں آپ کے پیچھے ہیں ۔اس دن میں ایک ساعت اور گھڑی ایسی ہے کہ جس خوش نصیب مومن کو وہ مل جائے تو جس بھلائی کی بھی اﷲ تعالیٰ سے درخواست کرے وہ قبول ہوتی ہے اور جس برائی سے بھی پناہ مانگے اسے عطا ہوتی ہے اور یہ دن ہمارے ہاں یوم المزید کہلاتا ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یوم المزید کیا ہے ؟عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت الفردوس میں ایک وادی بنائی ہے جس میں مشک کا ایک ٹیلہ ہے ۔جب جمعہ کا دن ہو گا تو اس کے پاس منبر بچھائے جائیں گے جن پر انبیاء علیہم السلام تشریف فرما ہوں گے ۔کچھ منبر سونے کے ہوں گے جن پر یاقوت و زبرجد کا جڑاؤ ہو گا ۔ان پر صدیقین، شہداء ،صالحین بیٹھیں گے اور بالا خانوں والے بھی اتر آئیں گے اور ان حضرات کے پیچھے اس ٹیلہ پر بیٹھ جائیں گے اور سب اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں گے ۔اس کی حمد و ثناء کہیں گے ۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے مجھ سے کچھ مانگو ۔وہ عرض کریں گے ہم آپ کی رضا چاہتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں تم سے راضی ہوں کہ اسی رضا نے تمہیں میرے گھر میں ٹھکانا دیا اور میرا اکرام تمہیں نصیب فرمایا ،پھر ایک تجلی ہو گی اور ان سب حضرات کو جمال جہاں آرا کا دیدار نصیب ہو گا ۔اس لحاظ سے اہل جنت کو جمعہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی محبوب نہ ہو گا کہ جس میں انہیں مزید در مزید اعزاز و اکرام نصیب ہو گا۔
اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور دیدار: ایک روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے میرے اولیاء کو کچھ کھلاؤ ۔چنانچہ کئی طرح کے کھانے لائے جائیں گے اور وہ ہر لقمہ میں پہلے سے الگ لذت پائیں گے ۔کھانے سے فراغت پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میرے بندوں کو کچھ پلاؤ تو کئی طرح کے مشروبات لائے جائیں گے اور ہر سانس پر پہلے سے جدا ذائقہ اور لذت پائیں گے ۔اس سے فارغ ہو ں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے میں تمہارا رب ہوں ، میں نے اپنا وعدہ جو تمہارے ساتھ کیا تھا سچا کر دیا ہے ۔ سو اب مجھ سے کچھ مانگو میں عطا کروں گا۔اہل جنت عرض کریں گے ۔ اے اﷲ ! ہم آپ کی رضا مندی چاہتے ہیں اور اس سوال و جواب کا دو دفعہ تکرار ہو گا تواﷲ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں یقینا تم سے راضی ہو گیا اور میرے ہاں اس سے بھی مزید ہے ۔آج میں تمہیں وہ اکرام بخشوں گا جو سب انعامات سے بڑھ کر ہو گا ۔ چنانچہ پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جس قدر اﷲ تعالیٰ کو منظور ہو گا خوب خوب نعمت دیدار حاصل کریں گے پھر اس کی بارگاہ جمال میں سجدہ ریز ہوں گے اور جب تک خدا کو منظور ہو گا سجدہ میں رہیں گے ۔پھر ارشاد پاک ہو گا اپنے سر اوپر اٹھا لو ! یہ عبادت کا موقع نہیں ہے ۔پس وہ جنت کے تمام انعامات کو بھول جائیں گے ۔پس دیدار کی ایک جھلک انہیں ان تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب لگے گی ۔ واپس لوٹیں گے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا مشک کے سفید ٹیلہ پر چلے گی اور ان کے سروں پر اور ان کے گھوڑوں کی پیشانیوں پر اسکی بکھیر ڈال دے گی ۔ اپنے اہل خانہ میں واپس آئیں گے تو ان کی بیویاں انکے حسن و جمال کا پہلے کی نسبت اضافہ دیکھ کر کہیں گی کہ تم تو پہلے سے کہیں زیادہ حسین بن کر آئے ہو۔
فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پردہ ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں پر جو پردہ تھا کہ وہ اس کی وجہ سے دیکھ نہ سکتے تھے وہ رکاوٹ دور کر دی جائے گی اور بعض نے اس کی طرف دیکھنے کا یہ مطلب کیا ہے کہ جنتی باری تعالیٰ کے اس اکرام کو دیکھیں گے جو اس سے پہلے نہ دیکھا ہو گا اور اکثر اہل علم ظاہری معنی ہی مراد لیتے ہیں کہ وہ باری تعالیٰ کو بلا کیفیت و بلا تشبیہ دیکھیں گے جیسے کہ آج دنیا میں اسے بلا تشبیہ پہچانتے ہیں۔
اہل جنت کا قد و قامت: حضرت عکرمہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل جنت مردیا عورت 33برس کے نوجوانوں کی طرح ہوں گے ۔اپنے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے موافق ساٹھ ہاتھ ہوں گے ۔جوان ہوں گے ،بدن پر بال نہ ہوں گے اور نہ داڑھی ہو گی۔ آنکھیں سرمگیں ہو ں گی۔ ان پر ستر جوڑے ہوں گے ۔ ہر جوڑا ہر آن ستر رنگ بدلے گا۔ اپنا چہرہ بیوی کے آئینہ جیسے شفاف چہرے میں دیکھ لے گا۔ ایسے ہی اس کے سینے اور پنڈلیوں کا حال ہو گا اور ان کی بیویاں خودان کے شفاف چہروں ، سینوں اور پنڈلیوں میں اپنے چہرے دیکھ سکیں گی۔ انہیں تھوک بلغم وغیرہ نہ آئے گی۔ اہل جنت ہر قسم کی کراہت اور نجاست کی چیزوں سے پاک صاف ہوں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جنتی عورت اگر اپنی ہتھیلی آسمان سے نیچے کی طرف کر دے تو زمین و آسمان کا درمیان سب منور ہو جائے ۔
جنتیوں کا کھانا اور اس کا ہضم ہونا: حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب کا ایک آدمی حضور اکرم ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ۔ کہنے لگا اے ابو القاسم! کیا آپ فرماتے ہیں کہ اہل جنت کھاتے پیتے ہیں ؟فرمایا ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! وہاں کے ایک آدمی کو سو آدمیوں کے کھانے پینے اور جماع کی قوت ملے گی۔ وہ کہنے لگا کہ جو کھائے پیئے گا، اس کو فراغت کی حاجت بھی ہو گی اور جنت تو پاکیزہ جگہ ہے جہاں نجاست کا نام نہیں ۔ارشاد فرمایا کہ ان کو کستوری جیسا خوشبودار پسینہ آئے گا اور یہی ان کی حاجت سے فراغت ہو گی۔
شجر طوبیٰ: حضرت معتب بن سمی (طوبیٰ لھم و حسن ماب)کے متعلق فرماتے ہیں کہ طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے ۔جنت میں جو بھی مکان اور رہائش گاہ ہے وہیں پر اس کا سایہ ہے ۔ اس کی ایک ایک شاخ ایسی ہو گی کہ اس میں قسم قسم کے پھل لگے ہوں گے ۔ ان پر بہت بڑے بڑے پرندے بیٹھتے ہوں گے ۔ جب کوئی شخص کسی پرندہ کی خواہش کرے گا، اسے بلائے گا۔ وہ اس کے دستر خوان پر آموجود ہو گا۔ وہ حسب خواہش اس کا کچھ حصہ کھائے گا اور یہ پھر پرندہ بن کر اُڑ جائے گا۔
جنتیوں کا حلیہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کا پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، وہ چودھویں رات کے چاند جیسے ہوں گے ۔ ان کے بعد ایسے ایسے ہوں گے جیسے کوئی ستارہ آسمان کے تمام ستاروں سے زیادہ چمکدار ہو۔ پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ ہوں گے ۔ انہیں پیشاب یا پاخانہ کی حاجت نہ ہو گی اور نہ تھوک اور بلغم وغیرہ آئے گا۔ ان کیلئے سونے کی کنگھیاں اور عود کی انگیٹھیاں ہوں گی ۔ پسینہ کستوری جیسا ہو گا۔ سب کے اخلاق شخص واحد کی طرح ایک ہی جیسے ہوں گے اور اپنے ابا حضرت آدم علیہ السلام کے قد کے موافق ساٹھ ہاتھ لمبے ہوں گے ۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ اہل جنت نوجوانی کے عالم میں ہوں گے ۔ چہروں پر داڑھیاں نہ ہوں گی بلکہ سر کے علاوہ اور آنکھوں کے ابرو اور پلکوں کے سوا باقی بدن پر بغل اور زیر ناف وغیرہ کہیں بال نہ ہوں گے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی لمبائی کے موافق ساٹھ ہاتھ قدہوں گے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لمبائی کے موافقت تینتیس برس کی عمر ، گوراچٹارنگ اور سبز لباس ہو گا۔
جنتیوں کی خوراک اور پوشاک: ایک جنتی اپنے آگے دستر خوان رکھے گا جس پر ایک پرندہ آکر کہے گا اے اﷲ کے ولی ! میں نے سلسبیل کے چشمہ سے سیرابی حاصل کی ہے ۔عرش کے نیچے جنت کے باغات میں چرتا اور فلاں فلاں پھل کھاتا رہا ہوں ۔اس کی ایک جانب کا ذائقہ پکے ہوئے گوشت کا ہو گا ۔ چنانچہ جس قدر مرغوب ہو گا وہ اس سے کھائے گا او ر اس جنتی ولی کے ستر حلے زیب تن ہوں گے ۔ ہر حلہ الگ رنگ کا ہو گا ۔ان کی انگلیوں میں دس دس انگوٹھیاں ہوں گی۔ پہلی انگوٹھی پر سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۔’’تم صحیح سلامت رہو گے اس کی بدولت کہ تم مضبوط رہے۔‘‘کندہ ہو گا۔دوسری پر ’’تم اس میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو۔‘‘ لکھا ہو گا تیسری پر ’’اور یہ جنت ہے جس کے تم مالک بنا دیئے گئے ہوا پنے اعمال کے عوض میں ۔ ‘‘لکھا ہو گا۔ چوتھی پر ’’تمہارے سب غم و افکار دور کر دیئے گئے ۔‘‘ لکھا ہو گا ۔پانچویں پر ’’ہم نے تمہیں زیورات اور جوڑے پہنائے ۔‘‘نقش ہو گا۔ چھٹی پر’’ہم نے حورعین سے تمہارا عقد کر دیا۔‘‘تحریر ہو گا ساتویں پر ’’اور تمہارے لئے ان جنتوں میں وہ نعمتیں ہیں جن کو جی چاہتا ہے اور آنکھیں لذت پاتی ہیں اور تم یہاں پر ہمیشہ رہو گے ۔‘‘لکھا ہو گا آٹھویں پر ’’تمہیں نبیوں اور صدیقوں کی رفاقت نصیب ہوئی۔‘‘لکھا ہو گا۔ نویں پر ’’تم ایسے جو ان بنے ہو جنہیں بڑھا پا نہیں آئے گا۔‘‘لکھا ہو گا اور دسویں انگوٹھی پر ’’تمہیں اس کے پڑوس میں سکونت ملی ہے جو اپنے ہمسایہ کو ایذا نہیں دیتے ۔‘‘نقش ہو گا۔
یہ تھیں جنت کی نعمتیں اور جنت ۔اور یقینا قارئین کا دل تو چاہتا ہے کہ اس جنت میں جائیں اور اس کی نعمتیں پائیں ۔ اس کا طریقہ کار بھی نظر قارئین ہے۔
جنت کی نعمتیں حاصل کرنے کیلئے پانچ چیزوں کی پابندی: حضرت فقیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اہل جنت والے انعامات کو حاصل کرنا چاہتا ہے ،اسے پانچ چیزوں کی پابندی لازم ہے :پہلی یہ کہ اپنے نفس کو تمام گناہوں سے باز رکھے ۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’اور اس نے نفس کو خواہش سے روکا سو جنت اس کا ٹھکانہ ہو گا۔‘‘
دوسری یہ کہ دنیا کی تھوڑی سی مقدار پر راضی ہو جائے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جنت کی قیمت ترک دنیا ہے ۔ تیسری یہ کہ ہر نیک کام کی خواہش رکھے اور طاعت کے کسی کام کو نہ چھوڑے ۔ نا معلوم کون سی طاعت گناہوں کی بخشش اور جنت کے حصول کا سبب بن جائے ۔اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :’’اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے عوض مالک بنا دئیے گئے ۔‘‘اور ایک آیت میں ہے ’’کہ انہیں یہ بدلہ ان کے اعمال کی وجہ سے دیا جائے گا۔‘‘
اور انہیں جو کچھ بھی اعزاز و اکرام ملیں گے وہ طاعت کی بدولت ہی ملیں گے ۔ چوتھی بات یہ کہ نیک لوگوں سے محبت رکھ اور ان کی ہم نشینی اختیار کرے کیونکہ ان میں سے کسی ایک کی بھی جب بخشش ہو گی تو وہ اپنے بھائیوں اور احباب کی سفارش کرے گا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ باہمی بھائی چارہ خوب پیدا کرو کیونکہ قیامت میں ہر بھائی کو سفارش کا موقعہ ملے گا اور پانچویں چیز یہ ہے کہ بکثرت دعا کیا کرے اور اﷲ تعالیٰ سے جنت کی اور خاتمہ بالخیر کی بہت زیادہ درخواست کرتا رہے ۔ بعض داناؤں کا کہنا ہے کہ ثواب کا یقین رکھتے ہوئے بھی دنیا کی طرف مائل ہونا جہالت ہے اور اعمال کے ثوا ب کو جان لینے کے باوجود ان کے لئے محنت نہ کرنا بے ہمتی اور اپنے کو عاجز بنانا ہے اور جنت میں یقینا راحت و آرام ہے ۔مگر یہ اسی کو ملے گا جس نے دنیا میں اس کیلئے تکالیف اٹھائی ہوں گی ۔ جنت میں غنیٰ اور تونگری ہو گی جو انہیں لوگوں کو ملے گی جنہوں نے بقدرِ ضرورت تھوڑی سی دنیا پر کفایت کی اور فضول اور زائد چیزوں کو چھوڑ دیا۔لہٰذا یہ پانچ کام کرنے والے کو جنت اور جنت کی نعمتیں میسر آئیں گی ۔ آج ہی ہم اپنا محاسبہ کریں کہ کیا پانچ کام ہم میں پائے جاتے ہیں۔
عبرت و بصائر : ایک زاہد کا قصہ منقول ہے کہ وہ روٹی کے بغیر سبزی اور نمک وغیرہ کھالیتے ۔ کسی نے کہا کہ بس آپ اسی پر گزارہ کرے ہیں؟فرمانے لگے میں اپنی دنیا جنت کیلئے بنا رہا ہوں اور تو اسے بیت الخلا کیلئے بناتا ہے ،یعنی تو مرغوب کھانے کھا کے بیت الخلا تک پہنچاتا ہے اور میں جو کچھ بھی کھاتا ہوں وہ اس لئے کہ عبادت و طاعت کیلئے سہارا بنے اور آخرکار جنت تک پہنچ سکوں۔
کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ حمام میں جانے لگے تو حمام والے نے روک دیا اور کہنے لگا کہ اجرت کے بغیر نہیں جا سکتے ۔ آپ روکر کہنے لگے اے اﷲ ! ۔یہ شیاطین اور فساق لوگوں کے آنے کا مقام ہے اور مجھے یہاں مفت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی تو میں انبیاء اور صدیقین کے مقام یعنی جنت میں کیسے داخل ہو سکوں گا۔؟
منقول ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام کی آسمانی تعلیمات اور وحی میں یہ بات ملتی ہے کہ اے ابن آدم ! تو دوزخ کو بھاری قیمت سے خرید تا ہے مگر جنت کو سستے داموں نہیں لیتا ۔ جس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک فاسق آدمی اپنے جیسے فاسقوں کی دعوت کرتا ہے اور اس پر سینکڑوں روپے کا خرچ بھی معمولی سمجھتا ہے تو یہ اس کا دوزخ کا سودا ہے جو بھاری قیمت پر حاصل کیا ۔اگر وہ اﷲ کی رضا کیلئے ایک درہم خرچ کر کے بعض محتاجوں کی دعوت کرنا چاہے تو اسے شاق گزرتا ہے جب کہ یہی اس کیلئے جنت کی قیمت تھی۔
معزز قارئین ! ہمارے اسلاف ہر موقع کو جنت کے حصول کیلئے تصرف میں لاتے۔ اگر ہمیں جنت اور جنت کی نعمتوں سے محبت ہے اور چاہت ہے تو ہمیں اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور خاتمہ بالایمان اور جنت نصیب فرمائے ۔آمین
میلاد النبی منانے کی شریعی حیثیت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی نے فرمایا، مفہوم:
کہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاھتے ہو تو میری (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) پیروی اوراتباع کرو اللہ تمھیں اپنا محبوب بنالے گا، اور تمھیں بخش دے گا.
ایک اور مقام پر فرمایا، مفہوم:
تم اس کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کیا گیا ھے، اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع مت کرو تم لوگ تو بہت ھی کم نصیحت پکڑتےھو
حوالہ: سورۃ الاعراف آیت: 3
ایک مقام پر فرمایا، مفہوم: اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ھے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وھ راہیں تم کو اللہ کی راھ سے جدا کر دیں گی.
حوالہ: سورۃ الانعام آیت 153
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: "یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ھے، اور سب سے بہتر اور اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ھے، اور سب سے برے امور دین میں بدعات کی ایجاد ہے."
حوالہ: رواہ مسلم، الجمعۃ، 868
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
جس کسی نے بھی ہمارے اس دین میں کوئ نئ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ھے تو وہ مردود ہے.
حوالہ: صحیح بخاری حدیث نمبر:2697
اسی طرح ایک صحیح روایت ہے، مفہوم:
جس کسی نے بھی کوئ ایسا عمل کیا جس پر ھمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود ھے.
حوالہ: صحیح مسلم
ان آیات اور احادیث کہ بعد عرض ھے کہ لوگوں نے جو بدعات ایجاد کیں ھیں ان میں ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبی کا جشن منانا بھی شامل ھے.
رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
اللہ تعالی بدعتی کا روزہ، نماز، زکوۃ، حج، فرض ونفل کوئ بھی عبادت قبول نہیں کرتا بلکہ اسلام سے بدعتی یوں خارج ھوجاتا ہے جیسے تیر کمان سے.
حوالہ: صحیح بخاری
میلاد النبی کی بدعت کو ایجاد کرنے والا شخص ملک المظفر ابو سعید کوکپوری تھا جو چھٹی یا ساتویں صدی میں تھا، جو اربال کا بادشاھ تھا، جیسا کہ مورخین مثلا حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور ابن خلکان رحمہ اللہ نے لکھا.
ابو شامہ کہتے ہیں: موصل میں اس کو منانے والا عمر بن محمد ملا تھا، جو صالح مشہور تھا. اربل کے بادشاہ نے اس کی پیروی میں جشن منایا.
(حوالہ: البیان الاخطاء بعض الکتاب 268-270)
اسی طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم: "یہ شخص (ابو سعید کوکپوری) ربیع الاول میں میلادالنبی کا بہت بڑا جشن منایا کرتا تھا..
(حوالہ: البدایہ جلد: 13 صفحہ: 137)
(اور ھم جانتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت نہیں)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مفہوم:
یہ شخص، صوفیوں کے لۓ ظہر سے فجر تک محفل سماع قائم کرتا اور ان کے ساتھ خود بھی رقص کرتا تھا.
(حوالہ: البدایہ جلد: 13، صفحۂ: 137)
اسی طرح ابن خلکان کہتے ھیں، مفہوم:
صفر کے ابتدا ایام سے ہی وہ زیبائش اور مزین کرتے، اور گانے والے، ارباب خیال، اور تماشہ کرنے والوں کے گروپ بناتے
(حوالہ: وفیات الاعیان جلد: 3 صفحہ: 274)
اس دن جو سب سے بڑی بدعت ھوتی ھے اور جس کا احیاء کیا جاتا ہے وھ مختلف قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کیے جاتے ھیں، اور لوگوں کو کھانے کی دعوت دی جاتی ھے، اس لۓ اگر مسلمان اسمیں شامل ھو، کھانا کھاۓ، اس دسترخوان پر بیٹھے، تو بلاشبہ وہ اس بدعت کو زندہ کرنے میں معاون ہے اور اللہ کا ارشاد ہے، مفہوم:
"اور برائ وگناہ اور ظلم و زیادتی میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو."
حوالہ: سورۃ المائدہ، سورۃ نمبر5 آیت نمبر 2
اورجیسا کہ حدیث پاک میں ہے، مفہوم: کہ (دین میں) ہر بدعت گمراہی ہے. اسلۓ ان امور سے بچنے ہی میں ایک مسلمان کی فلاح ہے. جو دین کا عمل قورون اولی یعنی صحابہ، تابعین اور تبع التابعین میں سے کسی سے بھی صحیح یا حسن لذاته روایات سے ثابت نہ ہو اس میں فلاح نہیں بلکہ بعد کے لوگوں کی ایجاد اور اختراہ ہے، اللہ مسلمانوں کو قرآن وسنة اور توحید پر مجتمع اور یکجا فرماۓ اور لغویات، بدعات و خرافات سے دور روکھے، آمین
ان تاریخی حقائق سے بھی یہ ثابت ہوا کہ میلاد النبی کا اجراء قرون اولی یعنی صحابہ، تابعین اور تبعہ التابعین کے وقت میں ثابت نہیں بلکہ یہ عمل بعد کے فاطمی امراء کی اجاد ہے اور یقینا بدعت ہے، اللہ نے فرمایا، مفہوم:
"اے ایمان والو! تم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے ڈرو.."
(حوالہ: سورۃ الحجرات سورۃ نمبر 49 آیت نمبر:1)
اور اسی طرح اللہ عزوجل نے فرمایا، مفہوم:
"اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال باطل نہ کرو"
(حوالہ: سورۃ محمد سورۃ نمبر 47 آیت نمبر 33)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اکثر اھل علم کے ہاں 12 ربیع الاول ہے اور ولادت 8 یا 9 ربیع الاول ہے
(مقالہ: السیرۃ النبویة، توقیتی مطالعه صفحہ 219 سے 223)
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن پر جشن منانہ کسی مسلمان کو زیب دے گا؟ جبکہ نبی اکرم کی وفات پر صحابہ تیش میں آگیے تھے سیدنا عمر قتل کرنے کو آمادہ ہوگیے، چونکہ اسکی اصل نہیں تو مسئلہ ہی غلط ہے جبکہ ایسا جشن ومیلاد منانا کفار کی مشابہت بھی ہے جسکی ممانعت آئ ھے
((حوالہ: ابی داود رقم الحدیث: 4031 وسندہ حسن صحیح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ اپنی پیدائیش کا دن قرار دیا اور اس دن ہی نبوت ملی
حوالہ: صحیح مسلم: 1162
اسی طرح روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعرض الاعمال یوم الاثنین والخمیس فاحب ان یعرض عملی وانا صائم
مفہوم: اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں، اور میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے میں ہوں.
(حوالہ: جامع الترمذی رقم الحدیث: 747 وسندہ حسن)
گویا معلوم ہوا کہ اگر کوئ شخص ہر پیر اور جمعرات کو اس نیت سے روزہ رکھے کہ ان دنوں میں اعمال اللہ عزوجل کو پیش کیے جاتے ہیں اور اس امید میں کہ اللہ اس شخص کے گناہ معاف کرے، اور وہ شخص اللہ کا شکر گزار ہو کہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اسلام جیسا دین دیا، تو یہ جائز ہے مگر کوئ شخص ہر سال میں صرف 12 ربیع الاول کو روزہ رکھے تو یہ ایک بدعت ہے
گویا عید میلاد النبی منانا اور اس موقع پر خاص جشن منانا ایک واضح بدعت ہوئ جو نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسطرح ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ، تابعین، تبع التابعین اور آئمہ دین نے ایسا کوئ عمل کیا. اگر یہ کوئی کارخیر ہوتا تو وہ ہم سے سبقت لے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے
(صحیح بخاری: 2697)
ایک روایت کا مفہوم: دین میں ہر نئی بات بدعت و گمراہی ہے اور انجام جہنم ہے
(جامع الترمذی رقم الحدیث: 2676 وسندہ صحیح
اللہ ھمیں راہ راست پر رکھے اور قرآن و السنۃ کی راہوں پر چلاۓ اور گمراہی اور بدعات سے دور رکھے، الھم آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالی نے فرمایا، مفہوم:
کہ دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاھتے ہو تو میری (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی) پیروی اوراتباع کرو اللہ تمھیں اپنا محبوب بنالے گا، اور تمھیں بخش دے گا.
ایک اور مقام پر فرمایا، مفہوم:
تم اس کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کیا گیا ھے، اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع مت کرو تم لوگ تو بہت ھی کم نصیحت پکڑتےھو
حوالہ: سورۃ الاعراف آیت: 3
ایک مقام پر فرمایا، مفہوم: اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ھے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وھ راہیں تم کو اللہ کی راھ سے جدا کر دیں گی.
حوالہ: سورۃ الانعام آیت 153
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: "یقینا سب سے سچی بات کتاب اللہ ھے، اور سب سے بہتر اور اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ھے، اور سب سے برے امور دین میں بدعات کی ایجاد ہے."
حوالہ: رواہ مسلم، الجمعۃ، 868
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
جس کسی نے بھی ہمارے اس دین میں کوئ نئ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ھے تو وہ مردود ہے.
حوالہ: صحیح بخاری حدیث نمبر:2697
اسی طرح ایک صحیح روایت ہے، مفہوم:
جس کسی نے بھی کوئ ایسا عمل کیا جس پر ھمارا حکم نہیں تو وہ عمل مردود ھے.
حوالہ: صحیح مسلم
ان آیات اور احادیث کہ بعد عرض ھے کہ لوگوں نے جو بدعات ایجاد کیں ھیں ان میں ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبی کا جشن منانا بھی شامل ھے.
رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
اللہ تعالی بدعتی کا روزہ، نماز، زکوۃ، حج، فرض ونفل کوئ بھی عبادت قبول نہیں کرتا بلکہ اسلام سے بدعتی یوں خارج ھوجاتا ہے جیسے تیر کمان سے.
حوالہ: صحیح بخاری
میلاد النبی کی بدعت کو ایجاد کرنے والا شخص ملک المظفر ابو سعید کوکپوری تھا جو چھٹی یا ساتویں صدی میں تھا، جو اربال کا بادشاھ تھا، جیسا کہ مورخین مثلا حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور ابن خلکان رحمہ اللہ نے لکھا.
ابو شامہ کہتے ہیں: موصل میں اس کو منانے والا عمر بن محمد ملا تھا، جو صالح مشہور تھا. اربل کے بادشاہ نے اس کی پیروی میں جشن منایا.
(حوالہ: البیان الاخطاء بعض الکتاب 268-270)
اسی طرح حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم: "یہ شخص (ابو سعید کوکپوری) ربیع الاول میں میلادالنبی کا بہت بڑا جشن منایا کرتا تھا..
(حوالہ: البدایہ جلد: 13 صفحہ: 137)
(اور ھم جانتے ھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت نہیں)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مفہوم:
یہ شخص، صوفیوں کے لۓ ظہر سے فجر تک محفل سماع قائم کرتا اور ان کے ساتھ خود بھی رقص کرتا تھا.
(حوالہ: البدایہ جلد: 13، صفحۂ: 137)
اسی طرح ابن خلکان کہتے ھیں، مفہوم:
صفر کے ابتدا ایام سے ہی وہ زیبائش اور مزین کرتے، اور گانے والے، ارباب خیال، اور تماشہ کرنے والوں کے گروپ بناتے
(حوالہ: وفیات الاعیان جلد: 3 صفحہ: 274)
اس دن جو سب سے بڑی بدعت ھوتی ھے اور جس کا احیاء کیا جاتا ہے وھ مختلف قسم کے کھانے پکا کر تقسیم کیے جاتے ھیں، اور لوگوں کو کھانے کی دعوت دی جاتی ھے، اس لۓ اگر مسلمان اسمیں شامل ھو، کھانا کھاۓ، اس دسترخوان پر بیٹھے، تو بلاشبہ وہ اس بدعت کو زندہ کرنے میں معاون ہے اور اللہ کا ارشاد ہے، مفہوم:
"اور برائ وگناہ اور ظلم و زیادتی میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو."
حوالہ: سورۃ المائدہ، سورۃ نمبر5 آیت نمبر 2
اورجیسا کہ حدیث پاک میں ہے، مفہوم: کہ (دین میں) ہر بدعت گمراہی ہے. اسلۓ ان امور سے بچنے ہی میں ایک مسلمان کی فلاح ہے. جو دین کا عمل قورون اولی یعنی صحابہ، تابعین اور تبع التابعین میں سے کسی سے بھی صحیح یا حسن لذاته روایات سے ثابت نہ ہو اس میں فلاح نہیں بلکہ بعد کے لوگوں کی ایجاد اور اختراہ ہے، اللہ مسلمانوں کو قرآن وسنة اور توحید پر مجتمع اور یکجا فرماۓ اور لغویات، بدعات و خرافات سے دور روکھے، آمین
ان تاریخی حقائق سے بھی یہ ثابت ہوا کہ میلاد النبی کا اجراء قرون اولی یعنی صحابہ، تابعین اور تبعہ التابعین کے وقت میں ثابت نہیں بلکہ یہ عمل بعد کے فاطمی امراء کی اجاد ہے اور یقینا بدعت ہے، اللہ نے فرمایا، مفہوم:
"اے ایمان والو! تم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے ڈرو.."
(حوالہ: سورۃ الحجرات سورۃ نمبر 49 آیت نمبر:1)
اور اسی طرح اللہ عزوجل نے فرمایا، مفہوم:
"اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال باطل نہ کرو"
(حوالہ: سورۃ محمد سورۃ نمبر 47 آیت نمبر 33)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اکثر اھل علم کے ہاں 12 ربیع الاول ہے اور ولادت 8 یا 9 ربیع الاول ہے
(مقالہ: السیرۃ النبویة، توقیتی مطالعه صفحہ 219 سے 223)
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن پر جشن منانہ کسی مسلمان کو زیب دے گا؟ جبکہ نبی اکرم کی وفات پر صحابہ تیش میں آگیے تھے سیدنا عمر قتل کرنے کو آمادہ ہوگیے، چونکہ اسکی اصل نہیں تو مسئلہ ہی غلط ہے جبکہ ایسا جشن ومیلاد منانا کفار کی مشابہت بھی ہے جسکی ممانعت آئ ھے
((حوالہ: ابی داود رقم الحدیث: 4031 وسندہ حسن صحیح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ اپنی پیدائیش کا دن قرار دیا اور اس دن ہی نبوت ملی
حوالہ: صحیح مسلم: 1162
اسی طرح روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعرض الاعمال یوم الاثنین والخمیس فاحب ان یعرض عملی وانا صائم
مفہوم: اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں، اور میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے میں ہوں.
(حوالہ: جامع الترمذی رقم الحدیث: 747 وسندہ حسن)
گویا معلوم ہوا کہ اگر کوئ شخص ہر پیر اور جمعرات کو اس نیت سے روزہ رکھے کہ ان دنوں میں اعمال اللہ عزوجل کو پیش کیے جاتے ہیں اور اس امید میں کہ اللہ اس شخص کے گناہ معاف کرے، اور وہ شخص اللہ کا شکر گزار ہو کہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اسلام جیسا دین دیا، تو یہ جائز ہے مگر کوئ شخص ہر سال میں صرف 12 ربیع الاول کو روزہ رکھے تو یہ ایک بدعت ہے
گویا عید میلاد النبی منانا اور اس موقع پر خاص جشن منانا ایک واضح بدعت ہوئ جو نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسطرح ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ، تابعین، تبع التابعین اور آئمہ دین نے ایسا کوئ عمل کیا. اگر یہ کوئی کارخیر ہوتا تو وہ ہم سے سبقت لے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہيں تو وہ ناقابل قبول ہے
(صحیح بخاری: 2697)
ایک روایت کا مفہوم: دین میں ہر نئی بات بدعت و گمراہی ہے اور انجام جہنم ہے
(جامع الترمذی رقم الحدیث: 2676 وسندہ صحیح
اللہ ھمیں راہ راست پر رکھے اور قرآن و السنۃ کی راہوں پر چلاۓ اور گمراہی اور بدعات سے دور رکھے، الھم آمین۔
قرآنی احکامات
اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے اپنے پیروکاروں کی اخلاقی اور روحانی دونوں اعتبا ر سے تربیت کر کے انکو اس بات کی جانب راغب کیا ہے کیاہے کہ وہ نہ صرف اپنے لئے جہدوجہد کریں بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی مدد کریں اور آگے بڑھنے میں مدد کریں ،انکا خیال رکھیں اوراپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں نہ کہ انکے دلوں کودکھی کریں۔قرآن کریم کا موضوع ہی انسان ہے تو اس میں انسان کے لئے ہر حوالے سے احکامات موجود ہیں جس پر وہ عمل کر کے اپنی زندگی کو پرسکون طریقہ کارکے مطابق بسر کر سکتا ہے ۔مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں نے خاص طور پر اس الہامی کتاب کے احکامات پر عمل درآمد کرنا تقریباََ چھوڑ ہی دیاہے جس کی وجہ سے ہم گونا گوں مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔قرآن مجید میں بیان کردہ احکامات ہر دور کے لئے یکساں ہیں ۔یہ طرہ امتیاز اسی آسمانی کتاب کو حاصل ہے کہ اس میں زیر زبر تک کی ہیر پھیر ممکن نہیں ہے اور اس میں بیان کردہ احکامات پر کسی بھی لمحے انسان عمل کرکے اپنی نجات کو ممکن بنا سکتا ہے۔قرآنی احکامات محض ایک دو موضوعات پر مبنی نہیں ہیں یہ اُن تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں جس سے انسان کو واسطہ پڑتاہے۔آج اسی حوالے سے میں ان احکامات کا خاص طور پر ذکر کروں گا جو کہ ہمارے لئے آج کے موجودہ دور میں بے حد کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں اگر ہم اُن پر خلوص نیت سے عمل پیرا ہو جائیں۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان دین سے دور ہونے لگے ہیں اور آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ غیر مسلم اقوام کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔ وہ دین کی باتوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔جن میں سے سب سے اولین اہمیت نماز کی ہے ،سب سے زیادہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ہم کسی نہ کسی بہانے سے اس حکم سے روگردانی کرے ہیں اورکہتے ہیں کہ حقوق العباد معاف نہیں ہونگے تو وہ ادا کرنا ضروری ہیں ،جبکہ حقوق اﷲ تو وہ ذات باری معاف کر سکتی ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں بھی اس کو ادا کیا تھا ۔نماز ہی کے بارے میں روز محشر سب سے: پہلے پوچھا جائے گا تو ہم اس اﷲ کے حکم سے کہ نماز قائم کرو ،جو اسکی الہامی کتاب میں سات سو سے زائد مرتبہ آیا ہے تو کیوں اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں؟ نماز تو کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے تو پھر ہم لوگ کیوں اذان سن کر بھی نماز کی ادائیگی سے کیوں گھبراتے ہیں ؟ کیا ہم اس قدر گناہ گار ہیں کہ اﷲ کے دربار میں حاضری سے بھی ڈرتے ہیں؟ نماز کو دین کا ستون کہا جاتا ہے او رہم اس ستون کے بنا ہی اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔نماز کی اہمیت کے حوالے سے درج ذیل آیتوں کا ملاحظہ کیجئے ۔
اے محمد ﷺ سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک(ظہر،عصر،مغرب،عشا کی) کی نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو،کیوں کہ صبح کے وقت قرآن کو پڑھنا موجب حضور(ملائکہ) ہے۔
سورہ بنی اسرائیل 17۔آیت نمبر78
صبر اور نما کے ذریعہ( اﷲ تعالیٰ سے) سے مدد طلب کرو۔ییہ (نماز) بہت بھاری ہوتی ہے سوائے ان لوگوں کے جو اﷲ سے ڈرنے والے ہیں۔(سوراہ البقرہ:54)
گناہگاروں سے پوچھ رہے ہونگے کہ آخر دوذخ میں کون سی چیز گھسیٹ لائی تو وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نہ تھے نماز پڑھنے والے( سورہ المدثر ۔آیت 41۔43)
تم سب اﷲ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو،قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،اور پاس والے پڑوسی سے،اجنبی ہمسایہ سے،ہم مجلس اور راہگیر (مسافر) سے اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں،احسان کا معاملہ رکھو ،یقین جانو اﷲ کسی ایسے شخص کو قطعاََ پسند نہیں کرتا جو(غرورسے) اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور(بڑے فخر سے) شیخی کی باتیں بگھارتا ہے۔(سورہ النساء ترجمہ آیت 36)
والدین کی اطاعت کے حوالے سے مذکورہ آیت کو اگر آج کی ہماری نوجوان نسل ہی پڑھ لے تو شاید ان میں سدھار ممکن ہو سکے جو کہ اپنے ماں باپ کی نافرمان ہو چکی ہے اور انکو قتل تک کرنے سے باز نہیں آتی ہے جس کا اندازہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ہم نام نہاد مسلمان ہیں اگرایسا نہ ہوتا تو قرآنی احکامات کی یوں دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی نہ کر رہے ہوتے۔ رشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ جوآج کے دور میں ہم سلوک رکھ رہے ہیں وہ ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،آپ میں سے اکثر لوگوں نے یتیموں کے حق کو بھی مارتے دیکھا ہوگا اور تنگ دستوں کو دھتکارتے بھی دیکھا لیا ہوگا۔ہم اپنے ماں باپ کی نافرمانی کر کے کبھی دنیا میں خوش و خرم نہیں رہ سکتے ہیں ،جو والدین کی فرماں بردار اولاد ہوتی ہے وہ کبھی دنیا میں اپنی جائز خواہشتات سے محروم نہیں رہ سکتی ہے کہ جس سے باپ راضی ہوتا ہو اُس سے خدا کیسے ناراض ہوگا؟ او پھر ماں کے پاؤں میں جنت رکھی ہے تو اﷲ کے احکامات جو کہ قرآن میں موجود ہیں کوئی عمل کرتا ہے تو پھر کیسے وہ رب جو اپنے بندہ کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے ،اپنے بندے کو جنت سے محروم رکھ سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں اس قرآنی حکم کو آج تک نہیں سمجھ سکے ہیں اور آپس میں گلے شکوئے کرتے رہتے ہیں کہ ہم کو کیوں غریبی میں رکھا ہوا ہے؟ ہمارا دوست یا ہمارا پڑوسی تو بہت دولت مند ہے پھر ہم کو اس قدر دولت سے کیوں محروم رکھ کر یوں ہمیں دنیا میں تنگدستی کا شکار کیا گیا ہے؟ایسے لوگ اس قرآنی حکم کو بغور پڑھ لیں تو شاید انکی زندگی آسان ہو جائے۔
رہا دنیا کا رزق ،تو اﷲ کو اختیار ہے ،جسے چاہے بے حساب دیتا ہے۔(سورہ البقرہ:213)
ہمارے آج کل کے معاشرے میں سچ بولنے والوں کی بہت کم لوگ قدر کرتے ہیں اور ہرجگہ بیچارہ سچا انسان شرمسار ہورہاہے کہ وہ کہاں آکر پھنس گیا ہے۔قرآن میں جابجا سچ بولنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ اس پر عمل نہیں کر تے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اسکی اہمیت کے بارے میں ذیادہ شدومد سے آگاہ کرتے ہیں کہ کہیں ہمیں انکی وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ہماری باوجود کوششوں کے بھی بعض اوقات ہمارا جھوٹ چھپ نہیں پاتا ہے ایک سچ کو چھپانے کے لئے ہزا ر جھوٹ بول کربھی کچھ حاصل نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ سچ بہرحال سامنے آہی جاتاہے۔اس حوالے سے قرآنی احکامات اس قدر سخت ہیں کہ اپنے خونی رشتوں کے خلاف بھی سچ بولنا پڑے تو حکم ہے کہ وہ بھی بولا جائے مگر ہم لوگ مفادپرستی کو اﷲ کے حکم پر ترجیح دیتے ہیں اور آج کے دور میں سچی گواہی دینے سے بھی جان چلی نہ جائے تو دینے سے باز رہتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کے بیانات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ پاکستان جیسے اسلامی مملکت میں کس طرح سے وہ اپنی سیاست کی دکانداری کو چمکا رہے ہیں ہرروز اپنی باتوں سے مکر جاتے ہیں ؟صرف اپنے مطلب کی خاطر دوسروں کو الو بنا کر بیان دیئے جاتے ہیں کہ ہماری باتیں حرف آخر نہیں ہیں؟جناب جب زندگی کا کچھ پتا نہیں کہ کب ختم ہوجائے تو حضرت انسان کی باتوں پر اعتبار کرنا تو بے وقوفی ہی ہوئی نا؟جب چور اپنی چوری آسانی سے تسلیم نہیں کرتا تو ایک جھوٹا شخص کس طرح سے اپنی باتوں کو جھوٹ تسلیم کرے ۔آپ خود فیصلہ کرلیجئے دہشت گردی کے خاتمے، بجلی ، بے روزگاری،منہگائی سے نجات اور خودکش حملوں کے خلاف کیا کچھ بیانات نہیں آتے ہیں حالات جوں کے توں ہی ہیں؟آخر سچ بول کے دوسرے ایماندار لوگوں کو انکے فیصلہ کن کردار کیوں ادا نہیں کرنے دیا جاتاہے ۔جب ہم جانتے ہیں کہ سچ کبھی نہ کبھی سامنے آنا ہی ہے تو پھر ہم لوگ کیوں جھوٹ کے پردے میں سچ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ؟آج کل موبائل فونز پر،انٹرنیٹ چیٹنگ اور روزمرہ کی گفتگو میں جھوٹ بولنے شاید اس بات سے بے خبر ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے اعمالوں کا کسی روز حساب کتاب دیں گے؟لیکن شاید ہم لوگ اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں آخرت کے نفع کی بجائے دنیا کے مفاد ذیادہ عزیز ہو چکے ہیں ہم اپنے آپ کو ہر طرح کے حساب کتاب سے ماورا سمجھ رہے ہیں ۔ اﷲ ہم پر رحم فرمائے(آمین)۔سچ بولنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ یاد نہیں رکھنا پڑتا ہے جب کہ جھوٹ بول کر بہت سی باتوں کو یاد بھی رکھنا پڑ جاتا ہے۔سچ بول کر ہم بہت سی مشکلات اورمسائل سے بچ سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ اوربالخصوص والدین کو اپنے طور پر بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ نوجوان نسل سچ کی اہمیت سمجھے اورسچائی کو معاشرے پھیلانے میں اپنا کردار سرانجام دے تاکہ روز حشر اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کے سامنے شرمسار نہ ہونا پڑے۔
آج کل خامخواہ ایک دوسرے پر غصہ کرنے کا رحجان بھی بڑھتا جا رہا ہے ،خاوند اپنی بیوی پر،ماں باپ اپنی اولاد پر اور مالک اپنے نوکر پر غصہ کر کے اسے اپنے رعب میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اُ ن سے اپنے کام کاج کروا سکیں ۔ایسے لوگ اگر قرآن احکام کو اس حوالے سے پڑھ لیں تو انکی ذات میں سدھار ممکن ہے ۔ابھی قرآن کی اسی آیت کو لیجئے جو کہ میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
اور غصہ کے ضبط کرنے والے لوگوں سے درگذر کرنے والے اور اﷲ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔ (3:134)
سورہ البقرہ میں ہے کہ اﷲ تعالی کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو،اور سلوک واحسان کرو،اﷲ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔قرآن میں جا بجا بیان ہوا ہے کہ اپنی دولت کو ایک جگہ مرکوز کر کے مت رکھیں اور اس کو اﷲ کی راہ میں خرچ کریں اور اﷲ اس دولت کو ہماری سوچ سے بھی زیادہ بڑھا کر ہمیں پھر سے عطاکرتا ہے مگر بہت سے کم عقل لوگ بھی اس قرآنی حکم کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر وہ جیسے کہ قرآن میں ہی ہے کہ کچھ لوگ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں ہیں،زبان رکھتے ہیں مگر بولتے نہیں ہیں ،دیکھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو اتنا کچھ عطا کیا ہوا ہے کہ ہم اس ر ب کا شکر اداکرنے کے قابل نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ ذات ہمیں بس دیئے جارہی ہے اور ہماری دولت سے اُس کو کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا ہے جبکہ اُسکی عطا کردہ دولت سے ہم اپنے لئے آسائش وغیر ہ خرید سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے بھی دنیا میں ہیں جو اُس واحد لاشریک کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود بنالیتے ہیں یا کسی اور کو سب کچھ عطا کرنے والا سمجھتے ہیں؟ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی اﷲ نے کوئی معافی نہیں رکھی ہے اور باقی تمام گناہ وہ بخشنے والا ہے ۔ہم میں سے اکثر لوگ گمراہی میں مبتلا ہو کر شرک کر جاتے ہیں اور ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوتی ہے۔اﷲ کے ہاں بس شرک ہی کی بخش نہیں ہے ،اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے ،جسے و ہ معاف کرنا چاہے جس نے اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔سورہ النسا ۔آیت116
عدل اﷲ تعالی کی صفت ہے۔ قران میں بھی باربار اس بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں۔قران میں ایک جگہ پر اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ــ’’میں بند وں پر ظلم نہیں کرتا ‘‘جبکہ دو سرے مقام پر یہ بات یوں کہی گئی ’’اے رسولﷺ جب آپ انکے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں بیشک اﷲ تعالی ٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جبکہ سورۃ شوری میں اسطرح سے حضور ﷺ کی زبان سے قران میں کہلایا گیا کہ’’کہو مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کرو‘‘۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اسلام کے دعویٰ دار ممالک بلکہ غیر مسلم معاشرے میں بھی عدل وانصاف کی فراہمی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے جس کی بناء پر مختلف انواع اقسام کے مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ڈاکڑ عافیہ صدیقی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی ہے ۔حالانکہ وہ پہلے ہی بہت اذیت اور تشد د کا سامنا کر چکی ہے لیکن عدل وانصاف کے دعویٰ دار امریکہ اس کو شاید اپنے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دینے پر تلا ہو ا ہے ۔اور ہمارے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں موجود ہیومین رائٹس کی تنظیمیں اور سیاست دان اپنے مطلب پرستی کی سرگرمیاں میں مصروف ہیں کسی کو اپنی مسلم بہن کی پکارسن کر اس کو انصاف فراہم کرنے کی فکر نہیں ہے ۔شاید ہم لوگ بے حس ہو چکے ہیں جب تک خود پر کچھ نہ ہو کسی کے لئے بھلا کرنے کی توفیق نہیں ملے گی۔ چند اسلامی ممالک کی حد تو عدل وانصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن ہمارے ارض پاک میں قیام کے آغاز سے ہی اس کے بارے میں ایسا سلوک کیا گیا ہے کہ حقدار بھی اپنے حق سے دستبرار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
قرآن میں عورتوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انکو اپنی زندگی آزاد و مرضی سے بسرکرنے کا حق دیا ہے مگر آج اس پر بھی بہت کم عمل درآمد کیا جاتا ہے۔بہت سے حق ،حق کا نعرہ لگانے والے ہی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ وہ انصاف پسند ہیں۔انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن کے احکامات کے مطابق مرد اُسی وقت چار شادیاں کرے جب وہ ہر ایک زوج کے ساتھ انصاف کر سکتا ہو،اگر ایسا نہ کیا تو وہ روزمحشر اس بابت خداوندکریم کو جواب دہ ہوگا؟اسکے ساتھ رشوت کا رجحان تو عام پاکستان میں ہوچکا ہے جبکہ اس حوالے سب بھی قرآنی احکام سخت ہیں مگر ہم ہیں کہ تنخواہ کے علاوہ رشوت لینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں اور جو دیتے ہیں انکی وجہ سے جو نہیں دے سکتا ہے وہ بھی بحالت مجبوری دیتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآنی احکامات کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو گذاریں تاکہ معاشرے میں بدامنی ختم ہو سکے اور روزمحشر ہم اﷲ کے سامنے بھی سرخرو ہو سکیں۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان دین سے دور ہونے لگے ہیں اور آج حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وہ غیر مسلم اقوام کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔ وہ دین کی باتوں پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔جن میں سے سب سے اولین اہمیت نماز کی ہے ،سب سے زیادہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر ہم کسی نہ کسی بہانے سے اس حکم سے روگردانی کرے ہیں اورکہتے ہیں کہ حقوق العباد معاف نہیں ہونگے تو وہ ادا کرنا ضروری ہیں ،جبکہ حقوق اﷲ تو وہ ذات باری معاف کر سکتی ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں بھی اس کو ادا کیا تھا ۔نماز ہی کے بارے میں روز محشر سب سے: پہلے پوچھا جائے گا تو ہم اس اﷲ کے حکم سے کہ نماز قائم کرو ،جو اسکی الہامی کتاب میں سات سو سے زائد مرتبہ آیا ہے تو کیوں اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں؟ نماز تو کسی بھی صورت میں معاف نہیں ہے تو پھر ہم لوگ کیوں اذان سن کر بھی نماز کی ادائیگی سے کیوں گھبراتے ہیں ؟ کیا ہم اس قدر گناہ گار ہیں کہ اﷲ کے دربار میں حاضری سے بھی ڈرتے ہیں؟ نماز کو دین کا ستون کہا جاتا ہے او رہم اس ستون کے بنا ہی اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔نماز کی اہمیت کے حوالے سے درج ذیل آیتوں کا ملاحظہ کیجئے ۔
اے محمد ﷺ سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک(ظہر،عصر،مغرب،عشا کی) کی نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو،کیوں کہ صبح کے وقت قرآن کو پڑھنا موجب حضور(ملائکہ) ہے۔
سورہ بنی اسرائیل 17۔آیت نمبر78
صبر اور نما کے ذریعہ( اﷲ تعالیٰ سے) سے مدد طلب کرو۔ییہ (نماز) بہت بھاری ہوتی ہے سوائے ان لوگوں کے جو اﷲ سے ڈرنے والے ہیں۔(سوراہ البقرہ:54)
گناہگاروں سے پوچھ رہے ہونگے کہ آخر دوذخ میں کون سی چیز گھسیٹ لائی تو وہ لوگ کہیں گے کہ ہم نہ تھے نماز پڑھنے والے( سورہ المدثر ۔آیت 41۔43)
تم سب اﷲ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو،قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ،اور پاس والے پڑوسی سے،اجنبی ہمسایہ سے،ہم مجلس اور راہگیر (مسافر) سے اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں،احسان کا معاملہ رکھو ،یقین جانو اﷲ کسی ایسے شخص کو قطعاََ پسند نہیں کرتا جو(غرورسے) اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور(بڑے فخر سے) شیخی کی باتیں بگھارتا ہے۔(سورہ النساء ترجمہ آیت 36)
والدین کی اطاعت کے حوالے سے مذکورہ آیت کو اگر آج کی ہماری نوجوان نسل ہی پڑھ لے تو شاید ان میں سدھار ممکن ہو سکے جو کہ اپنے ماں باپ کی نافرمان ہو چکی ہے اور انکو قتل تک کرنے سے باز نہیں آتی ہے جس کا اندازہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ہم نام نہاد مسلمان ہیں اگرایسا نہ ہوتا تو قرآنی احکامات کی یوں دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی نہ کر رہے ہوتے۔ رشتہ داروں اور یتیموں اورمسکینوں کے ساتھ جوآج کے دور میں ہم سلوک رکھ رہے ہیں وہ ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،آپ میں سے اکثر لوگوں نے یتیموں کے حق کو بھی مارتے دیکھا ہوگا اور تنگ دستوں کو دھتکارتے بھی دیکھا لیا ہوگا۔ہم اپنے ماں باپ کی نافرمانی کر کے کبھی دنیا میں خوش و خرم نہیں رہ سکتے ہیں ،جو والدین کی فرماں بردار اولاد ہوتی ہے وہ کبھی دنیا میں اپنی جائز خواہشتات سے محروم نہیں رہ سکتی ہے کہ جس سے باپ راضی ہوتا ہو اُس سے خدا کیسے ناراض ہوگا؟ او پھر ماں کے پاؤں میں جنت رکھی ہے تو اﷲ کے احکامات جو کہ قرآن میں موجود ہیں کوئی عمل کرتا ہے تو پھر کیسے وہ رب جو اپنے بندہ کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے ،اپنے بندے کو جنت سے محروم رکھ سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں اس قرآنی حکم کو آج تک نہیں سمجھ سکے ہیں اور آپس میں گلے شکوئے کرتے رہتے ہیں کہ ہم کو کیوں غریبی میں رکھا ہوا ہے؟ ہمارا دوست یا ہمارا پڑوسی تو بہت دولت مند ہے پھر ہم کو اس قدر دولت سے کیوں محروم رکھ کر یوں ہمیں دنیا میں تنگدستی کا شکار کیا گیا ہے؟ایسے لوگ اس قرآنی حکم کو بغور پڑھ لیں تو شاید انکی زندگی آسان ہو جائے۔
رہا دنیا کا رزق ،تو اﷲ کو اختیار ہے ،جسے چاہے بے حساب دیتا ہے۔(سورہ البقرہ:213)
ہمارے آج کل کے معاشرے میں سچ بولنے والوں کی بہت کم لوگ قدر کرتے ہیں اور ہرجگہ بیچارہ سچا انسان شرمسار ہورہاہے کہ وہ کہاں آکر پھنس گیا ہے۔قرآن میں جابجا سچ بولنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن پھر بھی ہم لوگ اس پر عمل نہیں کر تے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو اسکی اہمیت کے بارے میں ذیادہ شدومد سے آگاہ کرتے ہیں کہ کہیں ہمیں انکی وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ہماری باوجود کوششوں کے بھی بعض اوقات ہمارا جھوٹ چھپ نہیں پاتا ہے ایک سچ کو چھپانے کے لئے ہزا ر جھوٹ بول کربھی کچھ حاصل نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ سچ بہرحال سامنے آہی جاتاہے۔اس حوالے سے قرآنی احکامات اس قدر سخت ہیں کہ اپنے خونی رشتوں کے خلاف بھی سچ بولنا پڑے تو حکم ہے کہ وہ بھی بولا جائے مگر ہم لوگ مفادپرستی کو اﷲ کے حکم پر ترجیح دیتے ہیں اور آج کے دور میں سچی گواہی دینے سے بھی جان چلی نہ جائے تو دینے سے باز رہتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کے بیانات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ پاکستان جیسے اسلامی مملکت میں کس طرح سے وہ اپنی سیاست کی دکانداری کو چمکا رہے ہیں ہرروز اپنی باتوں سے مکر جاتے ہیں ؟صرف اپنے مطلب کی خاطر دوسروں کو الو بنا کر بیان دیئے جاتے ہیں کہ ہماری باتیں حرف آخر نہیں ہیں؟جناب جب زندگی کا کچھ پتا نہیں کہ کب ختم ہوجائے تو حضرت انسان کی باتوں پر اعتبار کرنا تو بے وقوفی ہی ہوئی نا؟جب چور اپنی چوری آسانی سے تسلیم نہیں کرتا تو ایک جھوٹا شخص کس طرح سے اپنی باتوں کو جھوٹ تسلیم کرے ۔آپ خود فیصلہ کرلیجئے دہشت گردی کے خاتمے، بجلی ، بے روزگاری،منہگائی سے نجات اور خودکش حملوں کے خلاف کیا کچھ بیانات نہیں آتے ہیں حالات جوں کے توں ہی ہیں؟آخر سچ بول کے دوسرے ایماندار لوگوں کو انکے فیصلہ کن کردار کیوں ادا نہیں کرنے دیا جاتاہے ۔جب ہم جانتے ہیں کہ سچ کبھی نہ کبھی سامنے آنا ہی ہے تو پھر ہم لوگ کیوں جھوٹ کے پردے میں سچ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ؟آج کل موبائل فونز پر،انٹرنیٹ چیٹنگ اور روزمرہ کی گفتگو میں جھوٹ بولنے شاید اس بات سے بے خبر ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے اعمالوں کا کسی روز حساب کتاب دیں گے؟لیکن شاید ہم لوگ اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں آخرت کے نفع کی بجائے دنیا کے مفاد ذیادہ عزیز ہو چکے ہیں ہم اپنے آپ کو ہر طرح کے حساب کتاب سے ماورا سمجھ رہے ہیں ۔ اﷲ ہم پر رحم فرمائے(آمین)۔سچ بولنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ یاد نہیں رکھنا پڑتا ہے جب کہ جھوٹ بول کر بہت سی باتوں کو یاد بھی رکھنا پڑ جاتا ہے۔سچ بول کر ہم بہت سی مشکلات اورمسائل سے بچ سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ اوربالخصوص والدین کو اپنے طور پر بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ نوجوان نسل سچ کی اہمیت سمجھے اورسچائی کو معاشرے پھیلانے میں اپنا کردار سرانجام دے تاکہ روز حشر اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کے سامنے شرمسار نہ ہونا پڑے۔
آج کل خامخواہ ایک دوسرے پر غصہ کرنے کا رحجان بھی بڑھتا جا رہا ہے ،خاوند اپنی بیوی پر،ماں باپ اپنی اولاد پر اور مالک اپنے نوکر پر غصہ کر کے اسے اپنے رعب میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اُ ن سے اپنے کام کاج کروا سکیں ۔ایسے لوگ اگر قرآن احکام کو اس حوالے سے پڑھ لیں تو انکی ذات میں سدھار ممکن ہے ۔ابھی قرآن کی اسی آیت کو لیجئے جو کہ میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
اور غصہ کے ضبط کرنے والے لوگوں سے درگذر کرنے والے اور اﷲ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے۔ (3:134)
سورہ البقرہ میں ہے کہ اﷲ تعالی کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو،اور سلوک واحسان کرو،اﷲ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔قرآن میں جا بجا بیان ہوا ہے کہ اپنی دولت کو ایک جگہ مرکوز کر کے مت رکھیں اور اس کو اﷲ کی راہ میں خرچ کریں اور اﷲ اس دولت کو ہماری سوچ سے بھی زیادہ بڑھا کر ہمیں پھر سے عطاکرتا ہے مگر بہت سے کم عقل لوگ بھی اس قرآنی حکم کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا پھر وہ جیسے کہ قرآن میں ہی ہے کہ کچھ لوگ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں ہیں،زبان رکھتے ہیں مگر بولتے نہیں ہیں ،دیکھتے ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو اتنا کچھ عطا کیا ہوا ہے کہ ہم اس ر ب کا شکر اداکرنے کے قابل نہیں ہیں مگر پھر بھی وہ ذات ہمیں بس دیئے جارہی ہے اور ہماری دولت سے اُس کو کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا ہے جبکہ اُسکی عطا کردہ دولت سے ہم اپنے لئے آسائش وغیر ہ خرید سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ ایسے بھی دنیا میں ہیں جو اُس واحد لاشریک کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود بنالیتے ہیں یا کسی اور کو سب کچھ عطا کرنے والا سمجھتے ہیں؟ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی اﷲ نے کوئی معافی نہیں رکھی ہے اور باقی تمام گناہ وہ بخشنے والا ہے ۔ہم میں سے اکثر لوگ گمراہی میں مبتلا ہو کر شرک کر جاتے ہیں اور ہمیں اس کی خبر تک نہیں ہوتی ہے۔اﷲ کے ہاں بس شرک ہی کی بخش نہیں ہے ،اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے ،جسے و ہ معاف کرنا چاہے جس نے اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔سورہ النسا ۔آیت116
عدل اﷲ تعالی کی صفت ہے۔ قران میں بھی باربار اس بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں۔قران میں ایک جگہ پر اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ــ’’میں بند وں پر ظلم نہیں کرتا ‘‘جبکہ دو سرے مقام پر یہ بات یوں کہی گئی ’’اے رسولﷺ جب آپ انکے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں بیشک اﷲ تعالی ٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جبکہ سورۃ شوری میں اسطرح سے حضور ﷺ کی زبان سے قران میں کہلایا گیا کہ’’کہو مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کرو‘‘۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اسلام کے دعویٰ دار ممالک بلکہ غیر مسلم معاشرے میں بھی عدل وانصاف کی فراہمی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے جس کی بناء پر مختلف انواع اقسام کے مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ڈاکڑ عافیہ صدیقی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی ہے ۔حالانکہ وہ پہلے ہی بہت اذیت اور تشد د کا سامنا کر چکی ہے لیکن عدل وانصاف کے دعویٰ دار امریکہ اس کو شاید اپنے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا دینے پر تلا ہو ا ہے ۔اور ہمارے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں موجود ہیومین رائٹس کی تنظیمیں اور سیاست دان اپنے مطلب پرستی کی سرگرمیاں میں مصروف ہیں کسی کو اپنی مسلم بہن کی پکارسن کر اس کو انصاف فراہم کرنے کی فکر نہیں ہے ۔شاید ہم لوگ بے حس ہو چکے ہیں جب تک خود پر کچھ نہ ہو کسی کے لئے بھلا کرنے کی توفیق نہیں ملے گی۔ چند اسلامی ممالک کی حد تو عدل وانصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن ہمارے ارض پاک میں قیام کے آغاز سے ہی اس کے بارے میں ایسا سلوک کیا گیا ہے کہ حقدار بھی اپنے حق سے دستبرار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
قرآن میں عورتوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انکو اپنی زندگی آزاد و مرضی سے بسرکرنے کا حق دیا ہے مگر آج اس پر بھی بہت کم عمل درآمد کیا جاتا ہے۔بہت سے حق ،حق کا نعرہ لگانے والے ہی انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ وہ انصاف پسند ہیں۔انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن کے احکامات کے مطابق مرد اُسی وقت چار شادیاں کرے جب وہ ہر ایک زوج کے ساتھ انصاف کر سکتا ہو،اگر ایسا نہ کیا تو وہ روزمحشر اس بابت خداوندکریم کو جواب دہ ہوگا؟اسکے ساتھ رشوت کا رجحان تو عام پاکستان میں ہوچکا ہے جبکہ اس حوالے سب بھی قرآنی احکام سخت ہیں مگر ہم ہیں کہ تنخواہ کے علاوہ رشوت لینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں اور جو دیتے ہیں انکی وجہ سے جو نہیں دے سکتا ہے وہ بھی بحالت مجبوری دیتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآنی احکامات کو سمجھ کر اپنی زندگیوں کو گذاریں تاکہ معاشرے میں بدامنی ختم ہو سکے اور روزمحشر ہم اﷲ کے سامنے بھی سرخرو ہو سکیں۔
Dec 28, 2014
پندرواں: انمول موتی
گمراه
اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجیے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 175
غافل لوگ
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 179
شكر گزار لوگ
اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 58
الله كي رحمت
اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوش خبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابرگراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 57
فساد برپا نہ كرو
اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا _ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کوخوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 55،56
جنت والے لوگ
اور ایمان لانے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ہم کسی کو (نیک اعمال کی بجا آوری میں) اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہراتے
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 42
جنت میں جانا
جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے تکبر کیا ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کا جنت میں جانا اس طرح محال ہے جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 40، 41
دگنا عذاب
اللہ فرمائے گا: تم لوگ جن و انس کی ان قوموں کے ہمراہ داخل ہو جاؤ جو تم سے پہلے جہنم میں جا چکی ہیں، جب بھی کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی اپنی ہم خیال جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو بعد والی جماعت پہلی کے بارے میں کہے گی: ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے، اللہ فرمائے گا: سب کو دوگنا (عذاب) ملے گا لیکن تم نہیں جانتے.
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 38
ظالم شخص
اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ ایسے لوگوں کو وہ حصہ ملتا رہے گا جو ان کے حق میں لکھا ہے چنانچہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ان کی قبض روح کے لیے آئیں گے تو کہیں گے: کہاں ہیں تمہارے وہ (معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے: وہ ہم سے غائب ہو گئے اور اب وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی کافر تھے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 37
تقویٰ والے لوگ
اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میںسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہو ں گے _ اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 35، 36
ناحق ظلم اور زيادتي حرام ہے
ان کی پہلی جماعت دوسری جماعت سے کہے گی: تمہیں ہم پر کوئی بڑائی حاصل نہ تھی؟ پس تم اپنے کیے کے بدلے عذاب چکھو
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 39
حد سے آگے مت نكلو
اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 31
آزمائش كي چيزيں
اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے، بے شک آپ کا رب (جہاں) جلد عذاب دینے والا ہے (وہاں) وہ یقینا بڑا غفور، رحیم بھی ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 165
دوسرے كا بوجھ
کہ دیجیے:کیا میں کسی غیر اللہ کو اپنا معبود بناؤں؟حالانکہ اللہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر (وہاں) وہ تمہیں بتائے گا جس چیز کے بارے میں تم لوگ اختلاف کیا کرتے تھے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 164
عبادات صرف الله كے ليے
کہ دیجیے: میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے -
سورۃ الانعام (6)- آیت : 162
سيدها راستہ
کہدیجیے: میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے جو ایک استوار دین ہے، (یہی) ملت ابراہیم (اور توحید کی طرف) یکسوئی کا دین ہے اور ابراہیم مشرکوں میںسے نہیں تھے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 161
نيكي كا دس گنا ثواب
جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بیشک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں - جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا اسے صرف اسی برائی جتنا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا
سورۃ الانعام (6)- آیات : 159-160
الله كا راستہ
اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے، اللہ نے تمہیں یہ ہدایات (اس لیے) دی ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو
سورۃ الانعام (6)- آیت : 153
ہميشہ انصاف كي بات كرو
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتے اور جب بات کرو تو عدل کے ساتھ اگرچہ اپنے قریب ترین رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جائے اور اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرو، یہ وہ ہدایات ہیں جو اللہ نے تمہیں دی ہیں شاید تم یاد رکھو
سورۃ الانعام (6)- آیات : 116-152
الله كے احكام
کہ دیجیے:آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں، (وہ یہ کہ) تم لوگ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ اور جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو ہاں مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو
سورۃ الانعام (6)- آیت : 151
ناپاك چيزيں
کہ دیجیے:جو وحی میرے پاس آئی ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہیں یا ناجائز ذبیحہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے (اور ان میں سے کوئی چیز کھا لیتا ہے) نہ (قانون کا) باغی ہو کر اور نہ (ہی ضرورت سے) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے.
سورۃ الانعام (6)- آیت : 145
زندگي اور روشني
کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی بخشی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو؟ یوں کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 122
نافرماني اور گناه
اور تم ظاہری اور پوشیدہ گناہوں کو ترک کر دو، جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں بے شک وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے - اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ سنگین گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کو پڑھاتے ہیں کہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک بن جاؤ گے
سورۃ الانعام (6)- آیات :120-121
قياس و گمان كي پيروي
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیںگے، یہ لوگ تو صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی کیا کرتے ہیں - بے شک آپ کارب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ہدایت پانے والوں سے بھی وہ خوب آگاہ ہے
سورۃ الانعام (6)- آیات : 116-117
جہالت اور شرك
گالی مت دو ان کوجن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 108
نشانياں
رسو ل کے ذمے بس حکم پہنچادینا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ سب جانتا ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 99
ستارے
اور وہی ہے جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے پیدا کیا، پھر ایک جائے استقرار ہے اور جائے ودیعت، ہم نے صاحبان فہم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کر دیا ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 98
ابراہیم (ع) كا واقعہ
اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 75
حكمت والا
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 74
نماز قائم كرو
اور یہ کہ نماز قائم کرو اور تقوائے الٰہی اختیار کرو اور وہی تو ہے جس کی بارگاہ میں تم جمع کیے جاؤ گے - اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیااور جس دن وہ کہے گا ہو جا! تو ہو جائے گا،اس کا قول حق پر مبنی ہے اور اس دن بادشاہی اسی کی ہو گی جس دن صور پھونکا جائے گا، وہ پوشیدہ اور ظاہری باتوں کا جاننے والا ہے اور وہی باحکمت خوب باخبر ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 72-73
اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجیے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 175
غافل لوگ
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 179
شكر گزار لوگ
اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 58
الله كي رحمت
اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوش خبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابرگراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 57
فساد برپا نہ كرو
اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا _ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کوخوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 55،56
جنت والے لوگ
اور ایمان لانے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ہم کسی کو (نیک اعمال کی بجا آوری میں) اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہراتے
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 42
جنت میں جانا
جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ان سے تکبر کیا ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور ان کا جنت میں جانا اس طرح محال ہے جس طرح سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا اور ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 40، 41
دگنا عذاب
اللہ فرمائے گا: تم لوگ جن و انس کی ان قوموں کے ہمراہ داخل ہو جاؤ جو تم سے پہلے جہنم میں جا چکی ہیں، جب بھی کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی اپنی ہم خیال جماعت پر لعنت بھیجے گی، یہاں تک کہ جب وہاں سب جمع ہو جائیں گے تو بعد والی جماعت پہلی کے بارے میں کہے گی: ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہٰذا انہیں آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے، اللہ فرمائے گا: سب کو دوگنا (عذاب) ملے گا لیکن تم نہیں جانتے.
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 38
ظالم شخص
اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ ایسے لوگوں کو وہ حصہ ملتا رہے گا جو ان کے حق میں لکھا ہے چنانچہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ان کی قبض روح کے لیے آئیں گے تو کہیں گے: کہاں ہیں تمہارے وہ (معبود) جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے: وہ ہم سے غائب ہو گئے اور اب وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ واقعی کافر تھے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 37
تقویٰ والے لوگ
اے اولاد آدم! اگر تمہارے پاس خود تم ہی میںسے رسول آئیں جو تمہیں میری آیات سنایا کریں تو (اس کے بعد) جو تقویٰ اختیار کریں اور اصلاح کریں پس انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہو ں گے _ اور جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور ان سے تکبر کرتے ہیں وہی اہل جہنم ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 35، 36
ناحق ظلم اور زيادتي حرام ہے
ان کی پہلی جماعت دوسری جماعت سے کہے گی: تمہیں ہم پر کوئی بڑائی حاصل نہ تھی؟ پس تم اپنے کیے کے بدلے عذاب چکھو
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 39
حد سے آگے مت نكلو
اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 31
آزمائش كي چيزيں
اور وہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض پر بعض کے درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں وہ تمہیں آزمائے، بے شک آپ کا رب (جہاں) جلد عذاب دینے والا ہے (وہاں) وہ یقینا بڑا غفور، رحیم بھی ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 165
دوسرے كا بوجھ
کہ دیجیے:کیا میں کسی غیر اللہ کو اپنا معبود بناؤں؟حالانکہ اللہ ہر چیز کا رب ہے اور ہر شخص اپنے کیے کا خود ذمے دار ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر (وہاں) وہ تمہیں بتائے گا جس چیز کے بارے میں تم لوگ اختلاف کیا کرتے تھے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 164
عبادات صرف الله كے ليے
کہ دیجیے: میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب یقینا اللہ رب العالمین کے لیے ہے -
سورۃ الانعام (6)- آیت : 162
سيدها راستہ
کہدیجیے: میرے پروردگار نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے جو ایک استوار دین ہے، (یہی) ملت ابراہیم (اور توحید کی طرف) یکسوئی کا دین ہے اور ابراہیم مشرکوں میںسے نہیں تھے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 161
نيكي كا دس گنا ثواب
جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے بیشک آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ یقینا اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں - جو (اللہ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا اسے دس گنا (اجر) ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گا اسے صرف اسی برائی جتنا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا
سورۃ الانعام (6)- آیات : 159-160
الله كا راستہ
اور یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلو اور مختلف راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ کے راستے سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے، اللہ نے تمہیں یہ ہدایات (اس لیے) دی ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو
سورۃ الانعام (6)- آیت : 153
ہميشہ انصاف كي بات كرو
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو (یتیم کے لیے) بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنے رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتے اور جب بات کرو تو عدل کے ساتھ اگرچہ اپنے قریب ترین رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ جائے اور اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرو، یہ وہ ہدایات ہیں جو اللہ نے تمہیں دی ہیں شاید تم یاد رکھو
سورۃ الانعام (6)- آیات : 116-152
الله كے احكام
کہ دیجیے:آؤ میں تمہیں وہ چیزیں بتا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں، (وہ یہ کہ) تم لوگ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین پر احسان کرو اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ اور جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو ہاں مگر حق کے ساتھ، یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو
سورۃ الانعام (6)- آیت : 151
ناپاك چيزيں
کہ دیجیے:جو وحی میرے پاس آئی ہے، اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہیں یا ناجائز ذبیحہ جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پس اگر کوئی مجبور ہوتا ہے (اور ان میں سے کوئی چیز کھا لیتا ہے) نہ (قانون کا) باغی ہو کر اور نہ (ہی ضرورت سے) تجاوز کا مرتکب ہو کر تو آپ کا رب یقینا بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے.
سورۃ الانعام (6)- آیت : 145
زندگي اور روشني
کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی بخشی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو؟ یوں کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 122
نافرماني اور گناه
اور تم ظاہری اور پوشیدہ گناہوں کو ترک کر دو، جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں بے شک وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے - اور جس (ذبیحہ) پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ سنگین گناہ ہے اور شیاطین اپنے دوستوں کو پڑھاتے ہیں کہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم بھی مشرک بن جاؤ گے
سورۃ الانعام (6)- آیات :120-121
قياس و گمان كي پيروي
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیںگے، یہ لوگ تو صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی کیا کرتے ہیں - بے شک آپ کارب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ہدایت پانے والوں سے بھی وہ خوب آگاہ ہے
سورۃ الانعام (6)- آیات : 116-117
جہالت اور شرك
گالی مت دو ان کوجن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو برا کہنے لگیں، اس طرح ہم نے ہر قوم کے لیے ان کے اپنے کردار کو دیدہ زیب بنایا ہے، پھر انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پس وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 108
نشانياں
رسو ل کے ذمے بس حکم پہنچادینا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اللہ سب جانتا ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 99
ستارے
اور وہی ہے جس نے تم سب کو ایک ہی ذات سے پیدا کیا، پھر ایک جائے استقرار ہے اور جائے ودیعت، ہم نے صاحبان فہم کے لیے آیات کو کھول کر بیان کر دیا ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 98
ابراہیم (ع) كا واقعہ
اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا (نظام) حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 75
حكمت والا
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھ رہا ہوں
سورۃ الانعام (6)- آیت : 74
نماز قائم كرو
اور یہ کہ نماز قائم کرو اور تقوائے الٰہی اختیار کرو اور وہی تو ہے جس کی بارگاہ میں تم جمع کیے جاؤ گے - اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیااور جس دن وہ کہے گا ہو جا! تو ہو جائے گا،اس کا قول حق پر مبنی ہے اور اس دن بادشاہی اسی کی ہو گی جس دن صور پھونکا جائے گا، وہ پوشیدہ اور ظاہری باتوں کا جاننے والا ہے اور وہی باحکمت خوب باخبر ہے
سورۃ الانعام (6)- آیت : 72-73
چودواں: انمول موتی
سونا اور چاندی جمع کرنے والے
اے ایمان والو! (اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 34
نافرمان لوگ
کہدیجیے: تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 24
قربانی
نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں
سورۃ الحج (22)- آیت: 37
الله کی بشارت
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں - ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں - ان میں وہ ابد تک رہیںگے، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیات: 20 تا 22
حج
سب سے پہلا گھرجولوگوں(کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے - اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقا م ابراہیم اور جو اس میںداخل ہوا وہ امان والاہو گیااور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے
سورۃ آل عمران (2)- آیات: 96، 97
سیدهی راه پر چلنے والے
یہ تھی تمہاری بات اور رہی کافروں کی بات تو اللہ ان کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 18
الله کی مسجدیں
پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش سے گزارے بے شک اللہ سننے والا، جاننے والاہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 17
الله بڑا با خبر ہے
اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 16
ایمان کا حق ادا کرنے والے
اور جو لوگ ایمان لائے اور مہاجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا نیز جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں،ان کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 74
صلح و دوستی
اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے . اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقینا اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 61، 62
ايمان والوں كو ہدايت
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے ہیں اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 47
الله صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے
اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ - اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 45،46
نقصان اٹهانے والے لوگ
جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ابھی مزید خرچ کرتے رہیں گے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے _ تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں
سورۃ الانفال (8)- آیات: 36، 37
فيصلے كي قوت
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 29
خيانت نہ كرو
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو - اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 27،28
شكر گزار بندے
اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو
سورۃ الانفال (8)- آیت: 26
زندگي بخشنے والي چيز
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 24
اطاعت
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو _ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے یہ تو کہ دیا کہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت وہ سنتے نہ تھے _ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 20 تا 22
ميدان جنگ ميں پیٹھ نہ پھیرو
یہ ہے تمہاری سزا پس اسے چکھو اور بتحقیق کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے _ اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا
سورۃ الانفال (8)- آیات: 14،15
حقيقي مؤمن
جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں _ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت اور باعزت روزی ہے
سورۃ الانفال(8)- آیات: 3،4
سچے اہل ايمان
مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں
سورۃ الانفال(8)- آیت: 2
ياد الهي
بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 201
الله كي پناه
(اے رسول) در گزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں _ اور اگر شیطان آپ کو اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگیں، یقینا وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 199، 200
خوش خبري سنانے والا
کہ دیجیے: میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 188
قيامت كي گهڑي
(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 157
سيدهي راه
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کاو قت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟ جسے اللہ گمراہ کرے کوئی اس کی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 185، 186
الله كي تدبير
اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتی ہے _ اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیںگے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی _ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 181،182،183
الله كے نام
اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 180
بري مثال
بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں _ راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 177، 178
غور و فكر
اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجیے کہ شاید وہ فکر کریں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 176
اے ایمان والو! (اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور انہیں راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 34
نافرمان لوگ
کہدیجیے: تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ فاسقوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 24
قربانی
نہ اس کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون بلکہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اسی طرح اللہ نے انہیں تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر تم اس کی بڑائی کا اظہار کرو اور (اے رسول) آپ نیکی کرنے والوں کو بشارت دیں
سورۃ الحج (22)- آیت: 37
الله کی بشارت
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال سے اور اپنی جانوں سے راہ خدا میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک نہایت عظیم درجہ رکھتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں - ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ان جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لیے دائمی نعمتیں ہیں - ان میں وہ ابد تک رہیںگے، بے شک اللہ کے پاس عظیم ثواب ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیات: 20 تا 22
حج
سب سے پہلا گھرجولوگوں(کی عبادت) کے لیے بنایا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے جو عالمین کے لیے بابرکت اور راہنما ہے - اس میں واضح نشانیاں ہیں (مثلاً) مقا م ابراہیم اور جو اس میںداخل ہوا وہ امان والاہو گیااور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے اور جو کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو (اس کا اپنا نقصان ہے) اللہ تو عالمین سے بے نیاز ہے
سورۃ آل عمران (2)- آیات: 96، 97
سیدهی راه پر چلنے والے
یہ تھی تمہاری بات اور رہی کافروں کی بات تو اللہ ان کی مکاری کا زور توڑ دینے والا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 18
الله کی مسجدیں
پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش سے گزارے بے شک اللہ سننے والا، جاننے والاہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 17
الله بڑا با خبر ہے
اور جس نے اس روز اپنی پیٹھ پھیری مگر یہ کہ جنگی چال کے طور پر ہو یا کسی فوجی دستے سے جا ملنے کے لیے تو (کوئی حرج نہیں ورنہ) وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت بری جگہ ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 16
ایمان کا حق ادا کرنے والے
اور جو لوگ ایمان لائے اور مہاجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا نیز جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں،ان کے لیے مغفرت اور باعزت رزق ہے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 74
صلح و دوستی
اور (اے رسول) اگر وہ صلح و آشتی کی طرف مائل ہو جائیں تو آپ بھی مائل ہو جائیے اور اللہ پر بھروسا کیجیے یقینا وہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے . اور اگر وہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے یقینا اللہ کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی نصرت اور مومنین کے ذریعے آپ کو قوت بخشی ہے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 61، 62
ايمان والوں كو ہدايت
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے ہیں اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 47
الله صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے
اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ - اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 45،46
نقصان اٹهانے والے لوگ
جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اپنے اموال (لوگوں کو) راہ خدا سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، ابھی مزید خرچ کرتے رہیں گے پھر یہی بات ان کے لیے باعث حسرت بنے گی پھر وہ مغلوب ہوں گے اور کفر کرنے والے جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے _ تاکہ اللہ ناپاک کو پاکیزہ سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم ملا کر یکجا کر دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے، (دراصل) یہی لوگ خسارے میں ہیں
سورۃ الانفال (8)- آیات: 36، 37
فيصلے كي قوت
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 29
خيانت نہ كرو
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالیکہ تم جانتے ہو - اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں اور بے شک اللہ ہی کے ہاں اجر عظیم ہے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 27،28
شكر گزار بندے
اور (وہ وقت) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے، تمہیں زمین میں کمزور سمجھا جاتا تھا اور تمہیں خوف رہتا تھا کہ مبادا لوگ تمہیں ناپید کر دیں تو اس نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہیں تقویت پہنچائی اور تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر کرو
سورۃ الانفال (8)- آیت: 26
زندگي بخشنے والي چيز
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے
سورۃ الانفال (8)- آیت: 24
اطاعت
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو _ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے یہ تو کہ دیا کہ ہم نے سن لیا مگر درحقیقت وہ سنتے نہ تھے _ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے
سورۃ الانفال (8)- آیات: 20 تا 22
ميدان جنگ ميں پیٹھ نہ پھیرو
یہ ہے تمہاری سزا پس اسے چکھو اور بتحقیق کافروں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے _ اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کافروں سے تمہارا سامنا ہو جائے تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا
سورۃ الانفال (8)- آیات: 14،15
حقيقي مؤمن
جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں _ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت اور باعزت روزی ہے
سورۃ الانفال(8)- آیات: 3،4
سچے اہل ايمان
مومن تو صرف وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں
سورۃ الانفال(8)- آیت: 2
ياد الهي
بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 201
الله كي پناه
(اے رسول) در گزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں _ اور اگر شیطان آپ کو اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگیں، یقینا وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 199، 200
خوش خبري سنانے والا
کہ دیجیے: میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 188
قيامت كي گهڑي
(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 157
سيدهي راه
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کاو قت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟ جسے اللہ گمراہ کرے کوئی اس کی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 185، 186
الله كي تدبير
اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتی ہے _ اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیںگے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی _ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 181،182،183
الله كے نام
اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 180
بري مثال
بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں _ راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں
سورۃ الاعراف(7)- آیات: 177، 178
غور و فكر
اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجیے کہ شاید وہ فکر کریں
سورۃ الاعراف(7)- آیت: 176
Dec 27, 2014
تیرواں: انمول موتی
حق کی طرف رہنمائی کرنے والا
کہدیجیے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ کہدیجیے: حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤکہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یاوہ جو خود اپنی راہ نہیںپاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
سورۃ یونس (11)- آیت: 35
اُلٹی راه
کہدیجیے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے؟ کہدیجیے: اللہ تخلیقکی ابتدا بھی کرتا ہے پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا، پھر تم کدھر الٹے جا رہے ہو
سورۃ یونس (11)- آیت: 34
کاموں کی تدبیر کرنے والا
کہ دیجیے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کر تاہے؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہ دیجیے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟
سورۃ یونس (11)- آیت: 31
عذاب
اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہرے پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں، یہ جہنم والے ہیں، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے.
سورۃ یونس (11)- آیت: 27
سیدها راستہ
اللہ (تمہیں) سلامت کدے کی طرف بلاتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے - جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروںپر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے
سورۃ یونس (11)- آیات: 25، 26
دنیا کی زندگی
دنیا وی زندگی کی مثال یقینا اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ہم اپنی نشانیاںاس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیت: 24
سرکشی کا وبال
پھر جب خدا نے انہیں بچا لیا تو یہ لوگ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے، اے لوگو یہ تمہاری بغاوت خود تمہارے خلاف ہے، دنیا کے چند روزہ مزے لے لو پھر تمہیں ہماری طرف پلٹ کر آناہے پھر اس وقت ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیاکرتے رہے ہو
سورۃ یونس (11)- آیت: 23
طوفان
وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے
سورۃ یونس (11)- آیت: 22
ناشکرے لوگ
اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں، کہدیجیے: اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیزہے، بیشک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں.
سورۃ یونس (11)- آیت: 21
مجرموں کو فلاح نہیں ہو گی
پس اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو سکتاہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ مجرم لوگ یقینا فلاح نہیں پائیں گے -اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھربھی)کہتے ہیں: یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہدیجیے: کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک و بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیات: 17، 18
ظلم اور سزا
اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے، ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں - پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو
سورۃ یونس (11)- آیات: 13، 14
بے حس انسان
اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیت: 12
ایمان والوں کی منزل
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی - جہاں ان کی صدا سبحانک اللھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے) اور وہاںان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّہ رب العالمین ہو گا
سورۃ یونس (11)- آیات: 9، 10
غافل لوگ
بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں- ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیات: 7، 8
الله کی نشانیاں
وہی توہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے
سورۃ یونس (11)- آیت: 5
انصاف کے ساتھ جزا
تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گااور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا
سورۃ یونس (11)- آیت: 34
حقیقی رب
یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟
سورۃ یونس (11)- آیت: 3
الله کی حکومت
آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 116
الله ہر چیز کا علم رکهتا ہے
اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے، بتحقیق اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 115
مومنین کی صفات
(یہ لوگ) توبہ کرنے والے، عبادت گزار، ثنا کرنے والے، (راہ خدا میں) سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کی دعوت دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 112
کہدیجیے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ کہدیجیے: حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤکہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یاوہ جو خود اپنی راہ نہیںپاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
سورۃ یونس (11)- آیت: 35
اُلٹی راه
کہدیجیے: کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے؟ کہدیجیے: اللہ تخلیقکی ابتدا بھی کرتا ہے پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا، پھر تم کدھر الٹے جا رہے ہو
سورۃ یونس (11)- آیت: 34
کاموں کی تدبیر کرنے والا
کہ دیجیے: تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کر تاہے؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟ پس وہ کہیں گے: اللہ، پس کہ دیجیے: تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟
سورۃ یونس (11)- آیت: 31
عذاب
اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہرے پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں، یہ جہنم والے ہیں، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے.
سورۃ یونس (11)- آیت: 27
سیدها راستہ
اللہ (تمہیں) سلامت کدے کی طرف بلاتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے - جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروںپر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے
سورۃ یونس (11)- آیات: 25، 26
دنیا کی زندگی
دنیا وی زندگی کی مثال یقینا اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لیے ہم اپنی نشانیاںاس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیت: 24
سرکشی کا وبال
پھر جب خدا نے انہیں بچا لیا تو یہ لوگ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے، اے لوگو یہ تمہاری بغاوت خود تمہارے خلاف ہے، دنیا کے چند روزہ مزے لے لو پھر تمہیں ہماری طرف پلٹ کر آناہے پھر اس وقت ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیاکرتے رہے ہو
سورۃ یونس (11)- آیت: 23
طوفان
وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے
سورۃ یونس (11)- آیت: 22
ناشکرے لوگ
اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں، کہدیجیے: اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیزہے، بیشک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں.
سورۃ یونس (11)- آیت: 21
مجرموں کو فلاح نہیں ہو گی
پس اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو سکتاہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے؟ مجرم لوگ یقینا فلاح نہیں پائیں گے -اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھربھی)کہتے ہیں: یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں، کہدیجیے: کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک و بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیات: 17، 18
ظلم اور سزا
اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے، ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں - پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو
سورۃ یونس (11)- آیات: 13، 14
بے حس انسان
اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیت: 12
ایمان والوں کی منزل
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی - جہاں ان کی صدا سبحانک اللھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے) اور وہاںان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّہ رب العالمین ہو گا
سورۃ یونس (11)- آیات: 9، 10
غافل لوگ
بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں- ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں
سورۃ یونس (11)- آیات: 7، 8
الله کی نشانیاں
وہی توہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے
سورۃ یونس (11)- آیت: 5
انصاف کے ساتھ جزا
تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گااور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا
سورۃ یونس (11)- آیت: 34
حقیقی رب
یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟
سورۃ یونس (11)- آیت: 3
الله کی حکومت
آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 116
الله ہر چیز کا علم رکهتا ہے
اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے، بتحقیق اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 115
مومنین کی صفات
(یہ لوگ) توبہ کرنے والے، عبادت گزار، ثنا کرنے والے، (راہ خدا میں) سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کی دعوت دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 112
جنّت کا وعده
یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں ان کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 111
منافقین کو معاف نہیں کیا جائے گا
(اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 80
مذاق اڑانے کا بدلہ
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے پوشیدہ رازوں اور سرگوشیوں سے بھی واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں سے بھی خوب آگاہ ہے؟ جو لوگ ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو برضا و رغبت خیرات کرتے ہیں اور جنہیں اپنی محنت و مشقت کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ان پر ہنستے بھی ہیں، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیات: 78-79
بد عہدی
اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے - لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے - پس اللہ نے ان کے دلوں میں اپنے حضور پیشی کے دن تک نفاق کو باقی رکھا کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور وہ جھوٹ بولتے رہے
سورۃ التوبہ (10)- آیات: 75-77
الله کی رحمت
اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیںاور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 71
منافق لوگ
منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 67
صداقت
یہ صدقات تو صرف فقیروں، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 60
الله کی راه میں نکلو
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہواہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 38
باره مہینے
کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد االلہ کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں، یہی مستحکم دین ہے، لہٰذا ان چار مہینوں میں تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیساکہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 36
دولت کا مزه چکهو
جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 35
یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں ان کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 111
منافقین کو معاف نہیں کیا جائے گا
(اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 80
مذاق اڑانے کا بدلہ
کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے پوشیدہ رازوں اور سرگوشیوں سے بھی واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں سے بھی خوب آگاہ ہے؟ جو لوگ ان مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو برضا و رغبت خیرات کرتے ہیں اور جنہیں اپنی محنت و مشقت کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ان پر ہنستے بھی ہیں، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیات: 78-79
بد عہدی
اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کر رکھا تھا کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے - لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے - پس اللہ نے ان کے دلوں میں اپنے حضور پیشی کے دن تک نفاق کو باقی رکھا کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور وہ جھوٹ بولتے رہے
سورۃ التوبہ (10)- آیات: 75-77
الله کی رحمت
اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں، وہ نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیںاور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 71
منافق لوگ
منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، وہ برے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ روکے رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے، بے شک منافقین ہی فاسق ہیں
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 67
صداقت
یہ صدقات تو صرف فقیروں، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 60
الله کی راه میں نکلو
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہواہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو؟ کیا تم آخرت کی جگہ دنیاوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہو؟ دنیاوی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 38
باره مہینے
کتاب خدا میں مہینوں کی تعداد االلہ کے نزدیک یقینا بارہ مہینے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں، یہی مستحکم دین ہے، لہٰذا ان چار مہینوں میں تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور تم، سب مشرکین سے لڑو جیساکہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 36
دولت کا مزه چکهو
جس روز وہ مال آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اسی سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پشتیں داغی جائیں گی (اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا، لہٰذا اب اسے چکھو جسے تم جمع کیا کرتے تھے
سورۃ التوبہ (10)- آیت: 35