Jan 14, 2015

Bukhari Hadith No:1

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہوتے وقت فرمایا: "میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ،پھر جس نے دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کام کے لئے ہو گی"۔
مکمل تحریر >>

Jan 1, 2015

جذبہِ محبت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہوئے)کہتے ہیں کہ انصار کا ایک (مخلص محب اور جاں نثار)آدمی بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو (آقا علیہ السلام کی رنگت دیکھ کر)اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ میں جناب کے رنگ میں تبدیلی محسوس کررہا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(رنگت میں تبدیلی کی بڑی وجہ ہے) بھوک۔یہ معلوم کرکے وہ انصاری اپنی قیام گاہ (گھر)پر آیا، مگر اپنے گھرمیں بھی اس نے کوئی چیز نہ پائی(جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کا سامان کرکے دلی مسرت وسکون حاصل کرتا) چنانچہ وہ کھانے پینے کی کسی چیز کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا ، تو اس دوران اس نے دیکھا کہ ایک یہودی اپنے باغ کو (کنویں سے ڈول نکال نکال کر)پانی دے رہا ہے۔مذکور صحابی نے پوچھا کیا میں تمہارے باغ کو سینچ (پانی لگا)دوں ؟اس نے کہا ہاں۔انصاری نے کہا تو سن لو ایک ڈول کے بدلے ایک کھجور ہوگی۔علاوہ ازیں اس نے یہ شرط بھی لگائی کہ وہ معاوضے میں نہ اندرسے سیاہ (خراب) کھجورلے گا نہ خشک کھجوراورنہ گری پڑی کھجور بلکہ وہ اس سینچائی کے بدلے میں موٹی تازی کھجور وصول کرے گا۔ اس معاہدہ کے مطابق اس نے تقریباً وہ ساع کھجور کے برابر۔ یہودی کے باغ کی سینچائی کی (پانی لگایا)اورمزدوری سے حاصل شدہ کھجور وں کایہ نذرانہ بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کردیا۔ (ابن ماجہ)
بعض روایات میں ا س پر یہ اضافہ ہے کہ جب اس نے کھجوریں لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیںاور عرض کیا کہ تناول فرمائیے ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟اس نے سارا واقعہ بتایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرا خیال ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہو۔اس نے عرض کیا:ہاں!بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میرے نزدیک میری جان،میری اولاد، میرے اہل وعیال اورمیرے مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمت بتاتے ہوئے ) فرمایا:اگر یہ بات ہے تو پھر فقروفاقہ پر صبر کرنا اورآزمائشوں کے لیے اپنی کمر کس لینا ۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے، جو شخص میرے ساتھ (سچی محبت رکھتا ہے تو یہ دونوں مذکور ہ چیزیں (فقروفاقہ اورآزمائشیں )اس کی طرف اس پانی سے بھی زیادہ تیز دوڑ کر آتی ہیں جو پہاڑکی چوٹی سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔(الاصابہ، مجمع الزوائد: بحوالہ ،حب رسول اورصحابہ کرام)۔
مکمل تحریر >>

جشن عيد ميلاد النبى جيسى بدعات كو اچھا سمجھنے والے كا رد

سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں

چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے

اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے

اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے

اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے

اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے

ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 )۔

ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى

شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں

" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا

اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے

اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى

ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 )۔

دوم

سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ

جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "

اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا

اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے

" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "

يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "

پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں

وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.

اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں

" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا

رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے

اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے

پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں

" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 )۔

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.

عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے

" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں

پہلى مثال

علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.

دوسرى مثال

كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.

تيسرى مثال

اصول فقہ كى تدوين.

چوتھى مثال

جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى
ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 )۔

اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں

" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 )۔

اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ

ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے

اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں

" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 )۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے

" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 )۔

اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں

" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے

" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى

اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا

لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں

" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا

اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے

بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو

كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى

ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 )۔

اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے

ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں

سوم

اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں. واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

حضرت آسیہ کا ایمان

حضرت آسیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا ایمان اپنے شوہر فرعون سے چھپایا تھا، جب فرعون کو اس کا پتہ چلا تو اس نے حکم دیا کہ اسے گوناگوں عذاب دئیے جائیں تاکہ حضرت آسیہ ایمان کو چھوڑ دیں لیکن آسیہ ثابت قدم رہیں۔ تب فرعون نے میخیں منگوائیں اور ان کے جسم پر میخیں گڑوا دیں اور فرعون کہنے لگا اب بھی وقت ہے ایمان کو چھوڑ دو مگر حضرت آسیہ نے جواب دیا، تو میرے وجود پر قادر ہے لیکن میرا دل میرے رب کی پناہ میں ہے، اگر تو میرا ہر عضو کاٹ دے تب بھی میرا عشق بیٹھتا جائے گا۔
موسٰی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، آسیہ نے موسٰی علیہ السلام سے پوچھا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا، اے آسیہ! آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں اور اللہ تعالٰی تیرے کارناموں پر فخر فرماتا ہے، سوال کر تیری ہر حاجت پوری ہوگی۔ آسیہ نے دعاء مانگی اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنادے، مجھے فرعون اس کے مظالم اور ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمایا۔
حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں، آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا، جب لوگ لوٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے آپ پر سایہ کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جنت والے گھر دیکھتی رہتی تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ جب فرعون نے حضرت آسیہ کو دھوپ میں لٹاکر چار میخیں ان کے جسم میں گڑوا دیں اور ان کے سینے پر چکی کے پاٹ رکھ دئیے گئے تو جناب آسیہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر عرض کی،
رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ
اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنا۔ (آخر تک)
جناب حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے اس دعاء کے طفیل آسیہ کو فرعون سے باعزت رہائی عطا فرمائی اور ان کو جنت میں بلا لیا جہاں وہ ذی حیات کی طرح کھاتی پیتی ہیں۔
اس حکایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مصائب اور تکالیف میں اللہ کی پناہ مانگنا، اس سے التجا کرنا اور رہائی کا سوال کرنا مومنین اور صالحین کا طریقہ ہے۔

(الماخوذ۔۔۔۔ کتاب “مکاشفۃ القلوب“)
مکمل تحریر >>

اے خالقِ کُل اے مالکِ كُل

اے خالقِ کُل اے مالکِ كُل اے عالِمِ كُل اے قادرِ كُل
رَحمان ہے تو سبُحان ہے تو كوئى تيرى صفتيں پا نہ سكا

ہر شے پہ تصرُّف ہے تیرا جب حُكم كيا تب مِينہ برسا
اے مالک اَبر سے تيرے سوا اک بُوند بھی كوئى گرا نہ سكا

قادِر وہ نہيں جس سے كبھی بن سكتى نہيں اک مکھّی بھی
مكھی تو بنانا دور رہا اِک بال بھى بدلا جا نہ سكا

مَخلُوق ہے وہ مَجبُور ہے وہ مَحکُوم ہے وہ مختار نہیں
جو ضُعف و ضرَر سے سُقم و اجَل سے اپنى جاں بچا نہ سكا

تو جس كو ڈبونے پر آئے پھر كس ميں ہے قُدرت پار كرے
مجبُور رہا محبُوب ترا كشتى ميں پِسر كو بٹھا نہ سكا

ہر دل پہ تَصَرُّف ہے تیرا اِیمان ہے تیری ایک عطا
جس دل پر تيرى مہر لگی اسے كَلِمہ كوئى پڑھا نہ سكا

زندے ہیں وسیلہ زندوں کا ، زندے ہی تعاون کرتے ہیں
کوئی مُردہ نکل کے تُربت سے دُنیا کے کام بنا نہ سکا

مُردوں کو اٹھاتے ہیں زندے ، جا کر دفناتے ہیں زندے
جب رُوح بدَن کو چھوڑ گئی کوئی چل کے لَحَد کو جا نہ سکا

خاموشؔ کو رکھ اپنا ہی گدا ، کر صَبر و تَوَکُّل اس کو عطا
اِس دَر کے سوا دُنیا کو نبی ، دَر اور کسی کا بتا نہ سکا
 
اے خالقِ کُل اے مالکِ كُل اے عالِمِ كُل اے قادرِ كُل
رَحمان ہے تو سبُحان ہے تو كوئى تيرى صفتيں پا نہ سكا
مکمل تحریر >>

جوتے میں پیسے


کسی یونیورسٹی کاایک نوجوان طالب علم ایک دن اپنے پروفیسر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا.. پروفیسر اپنی مشفقانہ طبیعت کی وجہ سے تمام طالب علموں میں بہت مقبول تھے.. چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک ان کی نظر ایک بہت خستہ حال پرانے جوتوں کی جوڑی پر پڑی.. جو پاس ہی کھیت میں کام کرتے ہوئے غریب کسان کی لگتی تھی..

طالب علم پروفیسر سے کہنے لگا "ایسا کرتے ہیں کہ اس کسان کے ساتھ کچھ دل لگی کرتے ہیں.. اور اس کے جوتے چھپا دیتے ہیں.. اور خود بھی ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں.. اور پھردیکھتے ہیں.. کہ جوتے نہ ملنے پر کسان کیا کرتا ہے.."


پروفیسر نے جواب دیا "ہمیں خود کو محظوظ کرنے کے لئے کبھی بھی کسی غریب کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہئیے.. تم ایک امیر لڑکے ہو.. اور اس غریب کی وساطت سے تم ایک احسن طریقہ سے محظوظ ہو سکتے ہو..
ایسا کرو ان جوتوں کی جوڑی میں پیسوں کا ایک ایک سکہ ڈال دو.. اور پھر ہم چھپ جاتے ہیں.. اور دیکھتے ہیں.. کہ یہ سکے ملنے پر کسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے.."
لڑکے نے ایسا ہی کیا.. اور پھر دونوں نزدیک ہی چھپ گئے..

غریب کسان اپنا کام ختم کر کے اس جگہ لوٹا.. جہاں اسکا کوٹ اور جوتے پڑے ہوئے تھے..کوٹ پہنتے ہوئے اس نے جونہی اپنا ایک پاؤں جوتے میں ڈالا.. تو اسے کچھ سخت سی چیز محسوس ہوئی.. وہ دیکھنے کی خاطر جھکا.. تو اسے جوتے میں سے ایک سکہ ملا..
اس نے سکے کو بڑی حیرانگی سے دیکھا.. اسے الٹ پلٹ کیا.. اور پھر بار بار اسے دیکھنے لگا.. پھر اس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی.. کہ شاید اسے کوئی بندہ نظر آ جائے.. لیکن اسے کوئی بھی نظر نہ آیا.. اور پھر شش و پنج کی ادھیڑ بن میں اس نے وہ سکہ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا.. لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی.. اور اسے ایک جھٹکا سا لگا.. جب دوسرا پاؤں پہنتے وقت اسے دوسرا سکہ ملا.. اس کے ساتھ ہی وفور جذبات سے اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں.. وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑا.. اور آسماں کی طرف منہ کر کےاپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا.. کہ جس نے اس کی کسی غیبی طریقے سے مدد فرمائی.. وگرنہ اس کی بیمار بیوی اور بھوکے بچوں کا جو گھر میں روٹی تک کو ترس رہے تھے.. کوئی پرسان حال نہ تھا..

طالب علم پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا.. اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.. تب اچانک پروفیسر بول پڑے.. اور لڑکے سے پوچھنے لگے " کیا تم اب زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہو.. یا اس طرح کرتے جو تم کرنے جا رہے تھے..؟"
لڑکے نے جواب دیا " آج آپ نے مجھے ایسا سبق سکھایا ہے.. جسے میں باقی کی ساری زندگی نہیں بھولوں گا.. اور آج مجھے ان الفاظ کی حقیقت کا بھی صحیح ادراک ہوا ہے.. جو پہلے کبھی ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آ سکے.. کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے..!! "

اگر آپ بھی زندگی میں حقیقی خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں.. تو دوسروں کی مدد کیجئے۔
مکمل تحریر >>

Ads